بھارت میں’’انتخابی جنگ‘‘ عروج پر

Last Updated On 06 May,2019 09:18 am

لاہور: (دنیا میگزین) بھارت میں لوک سبھا الیکشن کا فائنل راؤنڈ شروع ہو چکا ہے، سیاسی جنگ میں تیزی بڑھتی جا رہی ہے، ’’چور چوکیدار کی بحث عروج پر پہنچ چکی۔

پہلے مرحلے میں 91 نشستوں پر 20 ریاستوں میں پولنگ ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں 95 نشستوں پر 11 ریاستوں میں پولنگ ہوئی۔ تیسرے مرحلے میں 116 نشستوں پر 13 ریاستوں میں پولنگ ہوئی۔ اب تک 545 نشستوں میں سے 302 نشستوں پر پولنگ مکمل ہو چکی ہے۔ 90 کروڑ ووٹرز ووٹ کی طاقت استعمال کر رہے ہیں۔ 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نئی حکومت کا اعلان کیا جائیگا۔ اے وی ایم مشینوں کی ’’معنی خیز خرابی‘‘ پر اپوزیشن سراپا احتجاج ہے، الیکشن کمیشن سے ناراض ہے اور عدالتوں سے انصاف کے تقاضے کر رہی ہے۔

بی جے پی اپنا اقتدار اور وقار بچانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ کوئی جماعت آسانی سے شکست تسلیم نہیں کریگی۔ تازہ ترین بھارتی سروے کے مطابق آندھرا پردیش، پنجاب، کیرالہ اور تامل ناڈو میں راہول گاندھی کو برتری حاصل ہے۔

پوری ’’انتخابی جنگ‘‘ پاکستان کے نام پر لڑی گئی اور لڑی جا رہی ہے۔ کوئی قائداعظم کی تعریف کر رہا ہے تو کوئی تعریف کرنیوالے پر تنقید کر رہا ہے۔ ’’چور چوکیدار ہے‘‘ کانعرہ انتخابی جنگ میں ایسے مقبول ہوا جیسے بالی وڈ فلم میں ’’آئٹم سانگ‘‘ مقبول ہوتا ہے۔

اس بار بالی وڈ ستارے بھی خوب متحرک ہیں۔ نصیر الدین شاہ اور ان جیسے نظریات رکھنے والے فلم، ٹی وی، تھیٹر کے سینکڑوں فنکار، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز انتہا پسندوں کو ووٹ نہ دینے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ احتجاجی خطوط لکھ رہے ہیں جبکہ اکشے کمار نے نریندر مودی کا ’’غیر سیاسی انٹرویو‘‘ بھی کر ڈالا۔

شاہ رخ خان عوام پر ہر حال میں ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے زور دے رہے ہیں۔ کئی اداکار اور کھلاڑی باقاعدہ الیکشن بھی لڑ رہے ہیں۔ کانگریس کے پلیٹ فارم سے شتروگھن سنہا اور ارمیلا متونڈکر کے نام قابل ذکر ہیں تو بی جے پی سے ہیما مالنی اور سمرتی ایرانی ایک بار پھر لوک سبھا تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یہاں بی جے پی کے ’’سیاسی یوٹرن‘‘ یا سیاسی دھوکہ دہی کا ذکر ضرور کریں گے اور وہ یہ ہے کہ بھاجپا نے اپنے 4 مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہنے والے آنجہانی ونود کھنہ کی موت کے بعد انکے خاندان سے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں۔

گورداس پور کے حلقے کیلئے ونود کھنہ کی 20 سال کی خدمات تھیں۔ ان کی بیوہ کویتا کھنہ نے یہاں سے الیکشن لڑنے کیلئے بھاجپا کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہا لیکن بھاجپا نے کویتا کی بجائے سنی دیول کو ٹکٹ جاری کر دیا جس پر کویتا نے نہ صرف مایوسی کا اظہار کیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ اُن کے پاس آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے سمیت تمام آپشن موجود ہیں۔

ونود کھنہ اپنے حلقوں کے دور دراز دیہات کو آپس میں ملانے کی وجہ سے ’’پلوں کا سردار‘‘کے نام سے شہرت رکھتے تھے لیکن بھاجپا نے پلوں کے سردار اور اس کے خاندان سے ناطہ توڑنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔

علاوہ ازیں بھارتی سپریم کورٹ نے وزیراعظم نریندر مودی کی فلم بائیوپک پر عائد پابندی ختم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ پابندی 19 مئی تک جاری رہے گی۔

چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی بنچ نے اپنے حکم میں اس فلم پر عائد پابندی کوختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس حالت میں ہمارا مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

بنچ نے الیکشن کمیشن کے حکم میں بھی کوئی تبدیلی کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس پوزیشن میں ہم الیکشن کمیشن کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہے۔

دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کیخلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔

کانگریس کی رکن پارلیمینٹ سشمیتا دیو نے سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی اُس میں مطالبہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو ہدایت دے کہ وزیراعظم مودی اور امت شاہ کیخلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں جو شکایت کی گئی ہے اس میں الیکشن کمیشن کارروائی کرے۔

سپریم کورٹ نے کانگریس رکن پارلیمنٹ سشمیتا دیو کی درخواست سماعت کیلئے قبول کر لی۔ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھائیں تو بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے چوتھے مرحلیکی پولنگ بھی مکمل ہو چکی ہے۔

چوتھے مرحلے کیلئے مقبوضہ کشمیر کے حلقے اننت ناگ سمیت 9 ریاستوں کی 71 نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے۔ حریت قیادت کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ اور مکمل ہڑتال کی گئی۔

بھارت میں انتخابات کا پانچواں مرحلہ 6 مئی کو ہوگا۔ 7 ریاستوں کی 51 نشستوں پر پولنگ ہوگی۔ 12 مئی کو چھٹے اور 19 مئی کو ساتویں اور آخری مرحلے کیلئے ووٹ کاسٹ کئے جائیں گے جبکہ ووٹوں کی گنتی 23 مئی کو ہوگی اور اسی دن نتائج کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

بہرحال ’’انتخابی گیم ‘‘میں اس وقت خوب دھواں دھار پرفارمنسز جاری ہیں۔ نتائج آنے سے پہلے کسی کی ہار جیت کا گمان یا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ معاملات پیشگوئیوں کی سٹیج پار کر چکے ہیں اور اب وقت واقعی کم رہ گیا ہے اور مقابلے سخت سے سخت تر ہوتے جا رہے ہیں۔

بالی وڈ کے بعد اب رُخ کرتے ہیں کرکٹ کے میدانوں سے سیاست کے میدانوں میں اترنے والے دو کھلاڑیوں کا جو دو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے زبردست سیاسی چوکے چھکے لگا رہے ہیں۔

جی ہاں! ہم ذکر کر رہے ہیں نوجوت سنگھ سدھو اور گوتم گمبھیر کا۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے یہ دونوں اوپنرز لوک سبھا کی گراؤنڈ پر اپنا روایتی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔

سدھو کانگریس کیلئے کھیل رہے ہیں اور گھمبیر بی جے پی کی طرف سے قسمت آزما رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون کلین بولڈ ہوتا ہے اور کون ’’سکور بورڈ‘‘ پرجھنڈے گاڑتا ہے یعنی زیادہ سے زیادہ ووٹ لیکر کامیابی حاصل کرتا ہے۔

سدھو کہتے ہیں کہ ’’سنی دیول کا مشہور ڈائیلاگ تھا وہ ایک فلم میں کہتے تھے ’’تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ ‘‘جبکہ بی جے پی والے کہتے ہیں ’’جھوٹ پہ جھوٹ، جھوٹ پہ جھوٹ‘‘ کسان جو اَن داتا تھا آج بھوکا مر رہا ہے۔ کپڑا بُننے والا آج ننگا کھڑا ہے۔ مکان بنانے والا بے گھر ہو چکا ہے۔ ہم اقتدار میں آئے تو سارے جھوٹ اُکھاڑ پھینکیں گے۔

جھکتے وہ ہیں جِن میں جان ہوتی ہے

اکڑنا تو مُردوں کی پہچان ہوتی ہے

نریندر مودی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو اپنی کامیابی بتا رہے ہیں۔ میں ان کو چیلنج کرتا ہوں۔ اگر یہ ان کی کامیابی ہے تو انہیں اپنی انتخابی مہم میں شامل کیوں نہیں کیا؟

مودی اور بی جے پی نے نوٹ بندی کے فیصلے کو غیر معمولی بتایا تھا۔ اسی طرح جی ایس ٹی کے نفاذ کیلئے آدھی رات کو پارلیمینٹ بلائی گئی تھی لیکن یہ دونوں فیصلے عوام کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئے۔

نوٹ بندی کا فیصلہ صرف مودی کا تھا۔ اعلان کے آدھے گھنٹے بعد تک وزیر خزانہ کو اس کی اطلاع نہیں تھی۔ جب ملک کے وزیر خزانہ کو نوٹ بندی جیسے بڑے فیصلے کے بارے میں اطلاع نہیں تھی تو اگلی صبح کے اخبارات میں آن لائن ادائیگی کرنے کیساتھ وزیراعظم کا اشتہار کیسے شائع ہوگیا؟

اب چلتے ہیں گوتم گمبھیر کی طرف جو اس وقت کانگریس کی جانب سے شاندار باؤلنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ گوتم جم کر سیاسی بیٹنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن غلطیاں کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں۔

گوتم مشرقی دہلی سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کیخلاف بغیر اجازت کے سیاسی ریلی نکالنے پر مقدمہ درج ہو چکا ہے۔

الیکشن کمیشن کی ہدایت پر نئی دہلی پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ بی جے پی میں حال ہی میں شامل ہونیوالے سابق کھلاڑی نے 25 اپریل کو دہلی کے علاقے جنگ پورا میں ریلی کیلئے اجازت نہ لے کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

دوسری جانب عام آدمی پارٹی نے گوتم پر 2 ووٹر شناختی کارڈ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی رہنما آتشی کا کہنا ہے کہ گوتم گمبھیر کے دہلی کے 2 مختلف حلقوں کرول باغ اور راجندر نگر کے الگ الگ شناختی کارڈز ہیں۔

گوتم نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت یہ بات چھپائی کہ اُن کا کرول باغ میں بھی ووٹ رجسٹرڈ ہے، جو عوامی نمائندگی کے ایکٹ کی شق 125 اے کی خلاف ورزی ہے جس پر 6 ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

آتشی نے ٹویٹر پر کرول باغ اور راجندر نگر کے الیکٹورل رول کی تصاویر بھی شیئر کیں جن میں گوتم گمبھیر کا نام درج ہے۔ یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ گوتم نے 22 مارچ کو بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

 

وہ وزیراعظم نریندر مودی کے وژن سے متاثر ہیں۔ بھارت کیلئے مزید کچھ کرنے کی امید کے ساتھ سیاست میں آئے ہیں۔ دہلی میں لوک سبھا کی 7 نشستوں پر 12 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ ووٹوں کی گنتی 23 مئی کو ہوگی۔

 تحریر: طیبہ بخاری