کشمیر: 500 سے زائد حریت رہنما، تاجر گرفتار، تہران، برسلز میں بھارت مخالف مظاہرے

Last Updated On 08 August,2019 11:26 pm

سرینگر: (دنیا نیوز) راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے مودی سرکار پر برس پڑے اور بھارتی حکومت کو آئینہ دکھا دیا۔ دوسری طرف حریت رہنماؤں، تاجر، سیاستدان سمیت 500 سے زائد لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ چار روز سے وادی میں کرفیو برقرار ہے جبکہ ایران کے دارالحکومت تہران میں پاکستانی، کشمیریوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے آرٹیکل 35 اور 371 کے خاتمے پر بھارت مخالف نعرے لگائے۔

’بی جے پی کے کالے قانون نے کشمیر کو بھارت کے نقشہ سے اُڑا دیا راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے کالے قانون نے کشمیر کو بھارت کے نقشہ سے اُڑا دیا، میں نے وادی جانا تھا مجھے کہا گیا آپ کو اجازت نہیں لے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 1965 سمیت دو جنگیں دیکھیں تب ایسے حالات نہیں تھے جو مودی حکومت نے آج کشمیر میں پیدا کر دیئے ہیں، مودی سرکارکا کرفیو لگا کر حکومت کرنا کونسی بہادری ہے؟ یہ کونسا قانون ہے کہ جس کولانے کے لیے چار دن سے کرفیو لگایا گیا۔

غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ لوگ گھروں میں قید ہے کوئی باہرنہیں نکل سکتا، مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول تین، چار لوگوں پر دباؤ ڈال کر سڑک پر کھانا کھاتے ہیں، یہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے، مقبوضہ وادی کو تباہ کر دیا، ان کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جانا چاہیے، بھارتیا جنتا پارٹی نے پہلے بھارت اوراب کشمیر کو ختم کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں بے رحمانہ قتل عام کیا، حکومت نے آئین کے آرٹیکل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، جموں کشمیر کے لوگ اپنی شناخت سے محروم ہو گئے۔

بھارتی افواج پر نماز جمعہ کا خوف

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی افواج پر نماز جمعہ کا خوف سوار ہو گیا۔ مودی سرکار نے طاقت کے ذریعہ کشمیریوں کو نماز جمعہ سے روکنے کی تیاری شروع کر دی۔ آئمہ مساجد نے بھارتی دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا۔ آئمہ مساجد نے ڈٹ کر موقف اختیار کیا ہے کہ نماز جمعہ ہر حالت میں ہو کر رہے گی۔

خبر رساں ادارے کے مطابق نمازیوں کو جامع مسجد کی بجائے علاقائی مساجد تک محدود رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کئے جانے کے بعد جمعہ کا پہلا اجتماع ہوگا۔
 

تہران میں شہریوں کی بڑی تعداد کے بھارت مخالف نعرے دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد ایران کے دارالحکومت تہران میں بھارتی سفارتخانے کے باہر شہریوں کی بڑی تعداد نے مخالف نعرے لگائے۔

آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے معاملے پر تہران میں بھارتی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیا گیا، احتجاج میں ایرانی، پاکستانی اور کشمیریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے آزادی کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

برسلز میں کشمیریوں کے حق میں احتجاج

ادھر کشمیر کونسل یورپ نے برسلز میں احتجاجی کیمپ لگا لیا۔ یہ احتجاجی کیمپ یورپی یونین کے ایکسٹرنل ایکشن سروس کے سامنے لگایا گیا ہے۔ اس کیمپ میں بھارت مخالف نعرے لگائے گئے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثت ختم کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔

مقبوضہ کشمیر کے تمام اخبارات بند: برطانوی میڈیا


اُدھر مقبوضہ کشمیر کے تمام اخبارات مکمل بند ہیں۔ 5 اگست کے بعد کوئی خبر اپ ڈیٹ نہیں ہوئی۔

برطانوی میڈیا کے مطابق گریٹر کشمیر پر آخری خبر 5 اگست کو آئی، کشمیر مونیٹر کی ویب سائٹ تک رسائی ہی بند ہو گئی ہے۔ رائزنگ کشمیر، سرینگر ٹائمز اور دیگر اخبارات کی ویب سائٹس بھی 4 اگست کے بعد اپ ڈیٹ نہیں ہوئی۔

کرفیو کے باوجود شہریوں کے مظاہرے، گلیاں، بازار سنسان

دوسری طرف مقبوضہ وادی میں چوتھے روز بھی کرفیو نافذ ہے، گلیاں اور بازار سنسان ہیں، کمیونیکیشن بلیک آؤٹ بھی جاری ہے۔ کشمیری شہری شدید غصے میں سخت ترین کرفیو کے باوجود سڑکوں پر نکل آئے، سرینگر، پلوامہ، بارہمولہ اور دیگر علاقوں میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے خلاف احتجاج ہوا۔

پولیس نے سری نگر میں آنسو گیس اور پیلٹ گن فائر کئے، بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد وادی میں 4 روز سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے، ہر سڑک پر فوج اور خاردار تاریں لگا رکھی ہیں۔ حریت رہنما گھر اور جیلوں میں نظر بند ہیں۔

500 سے زائد حریت رہنما اور کارکن گرفتار

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد قابض فورسز کے آپریشن کے دوران اب تک 5 سو سے زائد حریت رہنما اور کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سیاستدان، تاجر سمیت دیگر لوگ بھی شامل ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق تقریباً تمام حریت رہنما بشمول آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین اور بزرگ سیاست دان سید علی گیلانی اور حریت فورم کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کو نظر بند یا جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔

محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ دوبارہ نظر بند

تازہ اطلاعات میں معلوم ہوا ہے کہ مقبوضہ وادی میں سرینگر، بارامولا، گریز اور دیگر اضلاع میں 560 کارکنان کو جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے جبکہ انکے خلاف جھوٹے مقدمات بھی بنادیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو بھی دوبارہ نظر بند کردیا گیا ہے۔

لداخ اور کارگل میں دفعہ 144 نافذ کے باوجود مظاہرے

ادھر بھارتی سرکار نے کارگل اور لداخ میں بھی دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ دفعہ 144 کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد باہر نکل آئی اور بھارت مخالف نعرے لگائے۔