لاہور: (روزنامہ دنیا) بھارتی وزیراعظم مودی نے ایک ہی دن میں واحد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کیساتھ بھارت کا 70 سالہ رشتہ یکسر تبدیل کر دیا بلکہ کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی ختم کر دی۔ مودی حکومت نے کشمیر میں ذرائع ابلاغ کا ناقابل یقین بلیک آؤٹ کر رکھا ہے جس سے لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ مودی نے ہمیشہ خود کو ایک نڈر رہنما کے طور پر پیش کیا جوکہ ماضی سے قطع تعلق کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے فیصلہ کر کے انہوں نے اپنے دور اقتدار کا سب سے بڑا جوا کھیلا اور شورش زدہ کشمیر کا مستقبل شک میں ڈال دیا ہے۔
ناقدین کی نظر میں کشمیر کی خود مختاری ختم کر نے کا فیصلہ آمرانہ انداز میں ہوا، کشمیریوں اور کشمیری قیادت سے کوئی مشاورت نہ کی گئی، اس لئے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس فیصلے سے کشمیریوں میں بھارت کے قابض طاقت ہونے کا تاثر گہرا ہوسکتا ہے جس سے پرتشدد مظاہروں کے علاوہ بنیاد پرستی بڑھے گی۔ گزشتہ چار روز سے ٹیلی فون و انٹرنیٹ سمیت تمام ذرائع ابلاغ کی مکمل بندش کے باعث بھارتی فیصلے پر کشمیریوں کے ردعمل جاننے کیلئے ان تک رسائی ممکن نہیں۔ کشمیریوں کو صرف محدود نقل و حرکت کی اجازت ہے، اجتماعات پر مکمل پابندی عائد ہے، گرفتار کشمیری قیادت کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود کشمیر میں مظاہرین نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا، فورسز کی فائرنگ میں متعدد افراد کے زخمی اور ایک شخص کے جاں بحق ہونے کی رپورٹس سامنے آئیں، ذرائع ابلاغ کی بندش کے باعث ان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
مقامی تاجر منظور بٹ نے بتایا کہ بدھ کو سری نگر کی فضا آنسو گیس کی بدبو سے رچی ہوئی تھی، صبح کے وقت شہر کی اہم سڑک مظاہرین کی جانب سے پھینکے گئے پتھروں سے بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کو جس طرح قید خانہ بنا دیا گیا ہے، لوگ اسے آسانی سے فراموش نہیں کریں گے۔ سابق بیوروکریٹ شاہ فیصل نے بتایا کشمیریوں کو سخت دھچکا لگا ہے۔ دوسری جانب حکمران بی جے پی کی نظر میں یہ فیصلہ تاریخی فتح ہے۔ بی جے پی کی حالیہ تاریخ پر کتاب کی مصنفہ صبا نقوی کے مطابق کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بی جے پی کی آئیڈیالوجی کے بنیادی نکات میں شامل ہے۔ پارٹی نے مسلم اکثریتی ریاست کی خصوصی مراعات کی ہمیشہ مخالفت کی۔ بی جے پی کے جنرل سیکرٹری رام مہادیو لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 370 ایک تاریخی غلطی تھی جسے علیحدگی پسندی کے جذبات کو ہوا دینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ کشمیریوں کے بھارت میں مکمل انضمام کیلئے اس کا خاتمہ ضروری تھا۔
مبصرین کے مطابق آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے بعد بی جے پی 2 دیگر نظریاتی ترجیجات پر توجہ مرکوز کرے گی، جن میں ایودھیا میں مندر کی تعمیر اور شادی و طلاق سمیت دیگر امور پر مذہبی اقلیتوں کے اپنے قوانین کا خاتمہ شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت کی آئینی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ریاست کا درجہ ختم کر کے اسے ‘‘یونین کا علاقہ’’ قرار دیا گیا ہو۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر امیتابھ مٹو نے کہا کہ کشمیر سے متعلق فیصلہ تشویش ناک ہے، اکثر لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ مودی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دے گا، مگر اس نے کشمیر کی ریاستی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔ آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سینئر فیلو منوج جوشی نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ آئندہ کشمیر میں کیا ہونیوالا ہے۔ ان کی نظر میں کشمیر پر فیصلہ کرنیوالوں نے بھی سوچا نہیں ہوگا کہ ان کے فیصلے کا انجام کیا ہوگا۔ نقل وحرکت اور ذرائع ابلاغ کی پابندیاں اٹھتے ہی کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا امکان ہے، پاکستان اگر جنگجوؤں کو سپورٹ کرتا ہے تو پھر تشدد میں کہیں زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اخبار کے مطابق کشمیر کے مرکزی سیاسی رہنماؤں کو اپنے وجود کے بحران کا سامنا ہے، وہ کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے نئی دہلی کیساتھ مذاکرات کے حامی رہے ہیں۔ شاہ فیصل کے مطابق مذاکرات کی بات ختم ہونے سے سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی باتیں دم توڑ گئی ہیں۔