نئی دہلی: ( روزنامہ دنیا) مقبوضہ کشمیر میں مہلک ترین خاموشی سے گرجدار ترین آواز اٹھ رہی ہے، یہ بات بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے انڈیا کے یوم آزادی پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں کہی۔ انہوں نے مزید لکھا کہ بھارت برطانوی راج سے آزادی کی 73 ویں سالگرہ منا رہا ہے، ادھر پھٹے پرانے کپڑوں میں بچے دہلی کی ٹریفک میں راستہ بناتے ہوئے بڑے سائز کے قومی پرچم اور سوونیئر فروخت کر رہے ہیں، جن پر تحریر ہے ‘‘میرا بھارت مہان’’۔ سچی بات کی جائے تو اس وقت ایسا محسوس کرنا مشکل ہے، کیونکہ لگتا ہے کہ جیسے ہماری حکومت بدمعاش ہو چکی ہے۔
گزشتہ ہفتے دہلی سرکار نے جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کی دستاویز میں درج شرائط کی یکطرفہ خلاف ورزی کی۔ 4 اگست کو دہلی سرکار نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کیا جس نے وادی کو اچانک ایک بڑے حراستی مرکز میں تبدیل کر دیا ہے۔ 70 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو ان کے گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے۔ انٹر نیٹ کنکشن کاٹ دیئے گئے ہیں۔ فون بھی ڈیڈ پڑے ہیں۔ 5 اگست کوبھارت کے مرکزی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں تجویز پیش کی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت عطا کرنے والی آئین کی شق 370 کو ختم کر دیا جائے۔ اس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا مگر اگلے ہی دن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے جموں اینڈ کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 منظورکرلیا۔ کشمیریوں کا یہ پرانا بلکہ بنیادی خوف رہا ہے کیونکہ انہیں تواتر کیساتھ اپنے ڈراؤنے خواب کے سچ ہونے کا دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں ان کی سرسبز وادی کے اس گھر کو فاتح بھارتی لہر بہا کر نہ لے جائے۔
جیسے ہی نئے بھارتی ایکٹ کی خبر پھیلی، ہر طبقے کے بھارتی قوم پرستوں نے بغلیں بجائیں۔ مرکزی میڈیا نے کم وبیش فیصلے کے سامنے سر جھکا دیا۔ گلیوں میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے، اور انٹرنیٹ پر پریشان کن زن بیزاری دیکھی گئی۔ ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لعل کھٹر نے اپنی ریاست میں صنفی تناسب میں بہتری پر بات کرتے ہوئے ازراہ تفنن کہا ‘‘ہمارے ٹھاکر جی کہتے تھے ہم بہار سے لڑکیاں لائیں گے، مگر اب وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کھل گیا ہے، ہم وہاں سے لڑکیاں لا سکتے ہیں’’۔ ان بازاری قسم کی سرگرمیوں کے دوران گرج دار ترین آواز کشمیر کی ہلاکت انگیز خاموشی سے اٹھ رہی ہے، جہاں ستر لاکھ سے زائد آبادی گلیوں میں کھڑی رکاوٹوں، خاردارتاروں اور پٹرولنگ کے درمیان ذلت آمیز قیدی بنی ہوئی ہے، وہاں ذرائع ابلاغ کا مکمل بلیک آؤٹ اور ڈرون طیاروں سے نگرانی بھی کی جاتی ہے۔
انفارمیشن کے اس دور میں ایک حکومت جس آسانی سے پوری آبادی کو باقی دنیا سے کاٹ سکتی ہے، لگتا ہے کہ ہم کسی سنگین صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ بھارت میں ضم نہیں ہونا چاہتے تھے مگر انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بھارت کی تقسیم اور اس کے ساتھ ہی پھوٹ پڑنے والا تشدد ایسا زخم ہے جو پوری طرح اب تک مندمل نہیں ہوسکا۔ تشدد کا سلسلہ وہیں تک محدود نہیں رہا، بعد میں بھی تشدد جاری رہا۔ قومی تعمیر کے نام پر جموں و کشمیر کو بھارت میں سمونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ 1947 کے بعد سے اب تک ایک بھی سال ایسا نہیں گزرا جب بھارتی فوج کو بھارت ہی کی حدود میں اپنے لوگوں کے خلاف تعینات نہ کیا گیا ہو۔ کشمیر کے علاوہ میزو رم، ناگا لینڈ، آسام، حیدر آباد (دکن) اور منی پور میں ایسا ہی کیا گیا ہے۔ مختلف علاقوں کو بھارت میں ضم کرنے کا دھندا خاصا پیچیدہ اور تکلیف دہ ثابت ہوا ہے۔ ہزاروں افراد نے جان سے ہاتھ دھوئے ہیں۔
ایک جانب بی جے پی کے انتہا پسندوں کے یہ اہانت آمیز تبصرے ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام جو 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ہیں اور جن کا بیرونی دنیا سے رابطہ معطل کر دیا گیا ہے اس وقت بالکل خاموش ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آزادی کے مطالبے سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے، کشمیری عوام بھارتی حکومت کے اس دعوے کو تسلیم کرنے کیلئے کسی صورت تیار نہیں کہ وہ کشمیریوں اور دیگر بھارتی ریاستوں کے عوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ بھارتی جنرلوں کا دعویٰ ہے کہ ( مقبوضہ) کشمیر میں گنتی کے چند عسکریت پسند گڑبڑ کر رہے ہیں، اگر یہ بات درست ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ وہاں 7 لاکھ بھارتی فوجی کیوں تعینات کیے گئے ہیں ؟ پہلے اگر کچھ شک وشبہ تھا بھی تو یہ بالکل واضح ہو جانا چاہئے کہ ان کے حقیقی دشمن کشمیری عوام ہیں۔
گزشتہ تیس برسوں کے دوران بھارت نے کشمیر میں جو کچھ کیا ہے ناقابل معافی ہے، ایسا کیوں ہے کہ گزشتہ 30 برس کے دوران 70 ہزارافراد اس تنازع کی نذر ہوچکے ہیں ؟ یہی نہیں بلکہ لاتعداد کشمیری لاپتا بھی ہیں، ہزاروں کشمیریوں کو خفیہ جیلوں میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ کیوں بنایا جار ہا ہے ؟۔