سری نگر: (ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں 12 ویں روز بھی کرفیو برقرار ہے۔ بھارتی بربریت انتہا کو پہنچ گئی، وادی کے اندر حراست میں لیے گئے افراد کیلئے جگہ کم پڑ گئی۔ ذاتی املاک قید خانوں میں بدل دی گئیں۔ قابض فوج نے کئی مقامات پر کشمیریوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق مقبوضہ وادی میں مسلسل 12 ویں روز بھی کرفیو برقرار ہے، مارکیٹوں میں ادویات ختم ہو چکی ہیں، خوراک کی شدید قلت کا مسئلہ اُٹھانے لگا ہے۔ بھارتی قابض فوج کی طرف سے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ 900 کے قریب سیاستدان ابھی بھی جیل میں بند ہیں۔ ان سیاستدانوں میں بھارت کے حمایت یافتہ عمر عبد اللہ، فاروق عبد اللہ، محبوبہ مفتی،انجینئر عبدالرشید، ساجد لون، شاہ فیصل سمیت دیگر شامل ہیں۔
شہری، حریت رہنما، سول سوسائٹی کے ارکان، صحافی، تاجر، وکیل سمیت دیگر بڑی تعداد کرفیو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ آزادی کے متوالوں نے جگہ جگہ "ہم کیا چاہتے آزادی" کے نعرے لگائے اور دیواروں پر ’’وی وانٹ فریڈم‘‘ کے نعرے بھی لکھ دیئے۔ ان دیواروں پر آزادی اور پاکستان بھی لکھا ہوا نظر آیا۔ وادی بڑے جیل کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں عوام گھروں میں بند ناکردہ جرم کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت انتہا کو پہنچ گئی ہے، وادی کے اندر حراست میں لیے گئے افراد کیلئے جگہ ختم ہو گئی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ذاتی املاک قید خانوں میں بدل دی گئی ہیں۔ بھارتی قابض فوج نے ایک اور صحافی کو گرفتار کر لیا ہے۔ ترال سے 26 سالہ صحافی عرفان امین ملک کو پکڑا گیا۔ وہ سرینگر سے تعلق رکھنے والے انگلش اخبار میں کام کرتے ہیں۔
عرفان امین ملک کے والد محمد امین ملک کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے بیٹے سے ملنے نہیں دیا جا رہا جبکہ والدہ کا کہنا تھا کہ بھارتی قابض فوجی رات کے اندھیرے میں دیوار پھلانگ کر آئے اور میرے بیٹے کو گرفتار کر کے لے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرفان کو گرفتار کرنا ہے میں نے مزاحمت کرنے کی کوشش تو میرے ساتھ بھی اچھا سلوک نہ کیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 560 کشمیریوں کو عارضی حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، کچھ افراد کو شیر کشمیرانٹرنیشنل کنونشن سینٹر اور دیگر کو مختلف علاقوں میں عارضی حراست خانوں میں رکھا گیا ہے، حراست میں لیے گئے افراد میں فورسزپر پتھربرسانے والے عام کشمیری بھی شامل ہیں۔
حریت فورمز، وکلا، صحافیوں، تاجروں اور ٹرانسپورٹرز نے کشمیری عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی مظالم کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر اور کارگل میں اپنے حق کے لیے گھروں سے باہر نکلیں۔
حریت فورمز نے اپنے بیان میں لوگوں سے کرفیو اور پابندیاں توڑنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کشمیریوں کی زمین ہے اور وہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ کشمیریوں کو بچانے کے لیے بغیر کسی تاخیر کے مداخلت کریں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نئی دہلی کی ہائی کورٹ نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن انجینئر عبدالرشید کو 21 اگست تک جیل بھیج دیا ہے۔بھارتی نواز انجینئر عبدالرشید کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے گرفتار کیا ہوا ہے۔ انہیں 9 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا۔
دریں اثناء بھارتی حمایت یافتہ سیاستدان شاہ فیصل کو سرینگر منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہیں چند روز قبل نئی دہلی سے بیرون ملک جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں رات کے اندھیرے میں گھر سے ایک ہوٹل میں منتقل کیا گیا ہے جہاں وہ نظر بند رہیں گے۔
اُدھر غیر ملکی میگزین فارن پالیسی نے جموں کشمیر کے مسئلے کو برطانیہ کا پھیلایا ہوا گند قرار دے دیا۔ میگزین کے مطابق برطانیہ نے جموں کشمیر میں جو افراتفری کا بیچ بویا تھا، وہ اب دنیا کاٹ رہی ہے۔
میگزین کے مطابق کشمیر کے باسی برطانیہ کی وجہ سے بھارتی حکومت کی دشمنی بھگت رہے ہیں، تنازعہ کی بنیاد برطانوی راج نے ڈالی تھی۔ برطانیہ اب تقسیم کرو اور خاموش رہو کی پالیسی پر کاربند ہے۔
فارن پالیسی کا مزید کہنا تھا کہ پورے ملک پر ہندو کلچر لاگو کرنا مودی سرکار کی پالیسی ہے، بھارتی وزیراعظم ملک کو فوجی حکومت کی طرح چلا رہے ہیں، بھارتی ریاست ایک سلطنت کی طرح کا برتاؤ کرتی ہے، بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات جمہوریت کے منافی ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا جاوید کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کے ساتھ ایسے برتاؤ کیا جا رہا ہے جیسے یہ کوئی جانور ہیں جنہیں پنجروں میں بند کیا گیا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کو ایک خط میں لکھتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگ آزادی منا رہے ہیں اور کشمیریوں کو جانوروں کی طرح گھروں میں بند کیا ہوا ہے، مجھے اپنے گھر سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔
التجا جاوید کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ اس بات کی وضاحت کریں کرفیو کیوں ہے، میرے ایک انٹرویو کے دوران بھارتی سکیورٹی اہلکار کے میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے، دھمکیوں جیسے عمل سے میں ڈرنے والی نہیں میں لکھتی اور بولتی رہوں گی۔میرے ساتھ ایسے برتاؤ کیا جا رہا ہے جیسے میں نے کوئی جنگی جرم کیا ہے۔
محبوبہ مفتی کی بیٹی کا مزید کہنا تھا کہ میری والدہ کو گرفتار کیا گیا ہے، انہیں اپنے وکیل اور پارٹی رہنماؤں سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا۔ مجھے گھر پر عملاً نظر بند کیا ہوا ہے۔