اسلام آباد: (مرکنڈے کا ٹجو ) ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب سچ بولنا ہی پڑتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ لمحہ آچکا ہے اور بلی کے گلے میں گھنٹی مجھے باندھنا پڑے گی۔ بہت جلد کشمیر بھارت کیلئے وہی ہوگا جو امریکا اور فرانس کیلئے ویتنام، روسیوں کیلئے افغانستان اور نپولین کیلئے سپین تھا۔ آج جو لوگ آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا جشن مناتے ہوئے اسے عظیم فتح قرار دے رہے ہیں بہت جلد خواب غفلت سے بیدار ہو کر ایک ڈراؤنا خواب دیکھیں گے جب کشمیر سے بڑے پیمانے پر تابوت آئیں گے۔
یہ وہی منظر ہوگا جو امریکیوں کیلئے ویتنام کی سر زمین نے پیدا کیا تھا۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز فی زمانہ ضرورت ہیں نہ کہ تعیش کا سامان، ان سہولتوں سے اگر کسی کو ایک دن کیلئے بھی محروم کر دیا جائے تو شدید اذیت رونما ہوتی ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ دو ماہ تک ان سہولتوں کے بغیر کشمیر کے لوگوں کو کیسی اذیت سے دوچار ہونا پڑا ہوگا۔ کرفیو اور دیگر پابندیوں نے کشمیریوں کیلئے اضافی پریشانی کا سامان کیا ہے۔ پابندیاں ہٹا کر دیکھ لیجئے، پوری وادی کو عوامی احتجاج گھیر لے گا، اور اگر پابندیاں برقرار رہیں تو پانی ابلتا رہے گا، حتیٰ کہ برتن پھٹ جائے۔ سچ کہیے تو کشمیر کا معاملہ ایسا ہے کہ نہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مرکز کی غیر دانش مندانہ اور کوتاہ بینی پر مبنی پالیسیوں کے باعث (اور 5 اگست کو آئین کے آٹیکل 370 کے ختم کیے جانے کے بعد سے ) کشمیر کی تقریباً پوری آبادی اجنبی ہو کر آج بھارت کیخلاف کھڑی ہے، اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ ویتنام کی طرح کشمیر میں بھی بھرپور شورش جلد ابھرے گی اور وادی سے لاشوں کی ترسیل شروع ہوگی۔ فوج اگر لڑسکتی ہے تو فوج سے، وہ عوام سے نہیں لڑسکتی۔ شیر کسی ہرن کو مار سکتا ہے، مچھروں کے جھنڈ کو نہیں مار سکتا۔ نپولین نے روس میں یہی محسوس کیا تھا (لیو ٹالسٹائی کا ناول ‘‘وار اینڈ پیس’’ پڑھیے ) اور جنرل ویسٹ مورلینڈ کو ویتنام میں یہی محسوس ہوا تھا۔ آج کشمیر میں لاکھوں فوجی اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار تعینات ہیں مگر ایک ایسے دشمن سے کیسے لڑسکتے ہیں جسے دیکھا نہ جاسکتا ہو، جو سائے کی شکل میں حرکت کرتا ہے، جو کہیں نہیں اور ہر جگہ ہے ! ہم نے کشمیر میں ایک ایسی صورتحال کو جنم دیا ہے جس میں بڑے پیمانے کی چھاپہ مار جنگ کو شروع ہونے سے روکنا بہت مشکل ہے۔
چھاپہ مار جنگ لڑنے والوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے حیرت زدہ کر دینا، حملہ کر کے بھاگنا اور چھپ جانا۔ چھاپہ مار جنگ لڑنے والے خود ہی طے کرتے ہیں کہ فریق ثانی پر کب، کہاں اور کتنے دورانیے کا حملہ کرنا ہے، وہ تیزی سے بھاگ جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ چھاپہ مار جنگ خاصی بے رحمانہ ہوتی ہے جس میں روایتی جنگ کے کسی بھی اصول یا ضابطے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اگر صورتحال برقرار رہی تو کشمیر میں بھی ایسا ہی ہوگا، جو اس وقت برائے نام بھی عسکریت پسند نہیں وہ بھی عسکریت پسند بن جائیں گے۔ جب کوئی نوجوان اپنے رشتہ داروں کو کسی جواز کے بغیر قتل ہوتے دیکھتا ہے تو غصے سے پاگل ہو جاتا ہے اور پھر عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس وقت کشمیر میں چند سو عسکریت پسند ہیں مگر اس تعداد میں تیزی سے اضافہ خارج از امکان نہیں۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ کہاں جاکر رکے گا۔ ہاں! ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ ہم کشمیر میں ایک طویل مدت تک الجھے رہیں گے۔
(بشکریہ دی ویک۔ مرکنڈے کاٹجو بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں)