انقرہ: (ویب ڈیسک) ترکی نے شام میں شروع کیے گئے آپریشن کے دوران 342 کرد جنگجو ہلاک کر دیئے۔ آپریشن کے تیسرے روز بھی ترک فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق ترک وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ مقصد کے لیے جو آپریشن شروع کیا وہ جاری ہے، تیسرے روز کے دوران بھی ہماری فوج مسلسل پیش قدمی کی طرف جا رہی ہے۔ آپریشن کے دوران ترکی کا پہلا فوجی اہلکار مارا گیا ہے۔
Turkish soldier Ahmet Topçu lost his life during the Operation Peace Spring in Syria. pic.twitter.com/zrkOYyYLCZ
— dokuz8NEWS (@dokuz8_EN) October 11, 2019
یاد رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کہہ چکے ہیں کہ کردوں سے یہ علاقہ خالی کروا کر جگہ کو ’’سیف زون‘‘ بنایا جائے گا اور یہاں پر ترکی میں موجود تین ملین سے زائد مہاجرین کو آباد کیا جائے گا، گزشتہ روز بھی انہوں نے انتباہی انداز میں کہا تھا کہ اگر سعودی عرب، مصر، یورپ سمیت دیگر ممالک کی طرف سے ترکی پر تنقید جاری رہی تو 36 لاکھ کے قریب مہاجرین کے لیے یورپ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔
فرانسیسی امدادی تنظیم ایم ایس ایف کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں ترک بمباری کے بعد وہاں موجود آخری سرکاری ہسپتال بھی بند کر دیا گیا ہے اور اس کا زیادہ تر عملہ جان بچا کر وہاں سے نکل گیا ہے۔ یہ ہسپتال فرانسیسی امدادی ادارے چلا رہا تھا۔
اُدھر اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ کشیدگی کے باعث 70 ہزار سے زائد شہری راس العین اور تل ابیاد کے علاقوں سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
دوسری طرف روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ شام میں ترک فوجی آپریشن داعش کی واپسی کا سبب بن سکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ شام کے شمالی حصے میں کُردوں کی قید میں موجود داعش کے جنگجو ترک فوجی آپریشن کے سبب فرار ہو سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ترکی صورتحال پر قابو رکھ سکے گا۔
دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی اور کُرد ملیشیا کے درمیان فوجی تنازعے کے حل میں ثالثی کرانے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
....We have one of three choices: Send in thousands of troops and win Militarily, hit Turkey very hard Financially and with Sanctions, or mediate a deal between Turkey and the Kurds!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) October 10, 2019
واشنگٹن میں گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں امریکا ایسا کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ترکی کو ایک بار پھر متنبہ کیا کہ اگر ترکی نے شام کے شمالی حصے میں اپنی حدود سے تجاوز کیا تو ترک معیشت کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی اور شامی کردوں کے درمیان جاری لڑائی کے خاتمے کیلئے تین تجاویز پیش کردیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کیلئے ہمارے پاس تین راستے ہیں۔ ٹرمپ نے لکھا کہ پہلا راستہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے ہزاروں فوجی وہاں بھیج کر عسکری طور پر کامیابی حاصل کریں۔ ٹرمپ نے بتایا کہ دوسرا حل یہ ہے کہ ہم ترکی پرسخت معاشی پابندیاں لگا کر اپنے اہداف حاصل کریں۔
امریکی صدر کے مطابق تیسرا راستہ یہ ہے کہ ہم ترکی اور کُردوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرکے معاہدہ کرادیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے داعش کو 100 فیصد شکست سے دوچار کیا ہے اورہم نے اپنا کام کامیابی سے سرانجام دیا ، اس وقت ہمارا کوئی فوجی اس علاقے میں موجود نہیں جو ترکی کے حملے کی زد میں ہے۔
واضح رہے کہ کُرد ملیشیا نے امریکی مدد سے دہشتگرد گروپ داعش کے خلاف کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکا کی طرف سے غیر متوقع طور پر شام کے شمالی حصے سے اپنی فوج نکالنے کے بعد ترکی نے وہاں فوجی کارروائی شروع کر دی ہے۔
ترک خبر رساں ادارے اندولو ایجنسی کے مطابق سیرین ڈیمو کریٹک فورس کے حملوں کے دوران ترکی کے حمایت یافتہ چار اہلکار مارے گئے ہیں۔ یہ حملہ شام میں ترکی کے قریبی سرحدی علاقے دادت گاؤں میں ہوا۔
دوسری طرف یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے مہاجرین کو یورپ کی طرف دھکیلنے کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ترک کارروائیوں پر تنقید جاری رہی تو مہاجرین کیلئے یورپ کے دروازے کھول دینگے: اردوان
ڈونلڈ ٹاسک جو اس وقت یورپی یونین کے ملک سائپرس کے دورے پر ہیں کا کہنا ہے کہ ترک صددر کا بیان بلیک میل کرنے کے مترادف ہے، ہم مزید کسی مہاجرین کو اپنے علاقوں میں برداشت نہیں کر سکتے۔ ترکی کو یہ سمجھنا ہو گا کہ شام میں جو کارروائیاں جاری ہیں اس سے مزید انسانی بحران سر اٹھا سکتا ہے۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جنز سٹولنبرگ کا کہنا ہے کہ شام میں کردوں کیخلاف شروع کیے گئے آپریشن پر ترکی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔
ترک وزیر خارجہ کے ساتھ بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے تاثرات ترکی کے ساتھ شیئر کیے ہیں، شام میں شروع کیا گیا آپریشن خطے میں نئے تنازعات پیدا کر سکتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ ترکی کو بہت سارے سکیورٹی خدشات ہیں لیکن میرے نزدیک ترکی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے۔