کربلا: (ویب ڈیسک) عراق میں حکومت کے خلاف جاری مظاہرے پر تشدد شکل اختیار کرنے لگے ہیں، کربلا سمیت ملک بھر میں خونریزی کے باعث 17 مظاہرین ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے جبکہ مقتدی الصدر نے قبل از انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
عرب خبر رساں ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق عراق میں حکومت مخالف مظاہرین پر سکیورٹی دستوں کی فائرنگ کے نتیجے میں گزشتہ روز کم از کم 17 مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ ان 17 مظاہرین میں سے صرف 14 کا تعلق ملک کے بڑے شہروں میں سے ایک کربلا سے ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ سو سے زائد رہی۔
عرب خبر رساں ادارے کے مطابق کربلا کے پولیس چیف کا کہنا ہے کہ 14 مظاہرین کی ہلاکتوں کی تعداد میں کوئی حقیقت نہیں، صرف ایک شخص ہلاک ہوا ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کی ہلاکت کی وجہ نامعلوم افراد کی فائرنگ ہے جو کریمنل واقعہ ہے۔
سکیورٹی آفیشل ذرائع کے مطابق کربلا میں ہونے والے احتجاج کا مرکز ایجوکیشن سکوائر ہے، یہ سکوائر روزہ امام حسین ؑ سے دو کلو میٹر دور ہے جہاں پر مظاہرین کی بڑی تعداد بیٹھی ہوئی ہے۔
کربلا کے گورنر نے بھی مظاہرین کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تردید کی ہے، سکیورٹی فورسز صرف اپنا دفاع کر رہی ہیں، مظاہرین کے پاس ہتھیار اور بم موجود ہیں۔
عراقی شہر حلہ سے موصول ہونیوالی خبروں کے مطابق طبی ذرائع اور سکیورٹی اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے انتہائی مقدس شہر کربلا میں 28 اور 29 اکتوبر کی درمیانی شب ملکی سکیورٹی فورسز نے حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے شہریوں اور طلبہ پر فائر کھول دیا۔ بدامنی کے نتیجے میں کربلا میں کم از کم 14 مظاہرین مارے گئے جبکہ 865 زخمی ہو گئے۔
جنوبی عراقی شہر ناصریہ میں بھی تین ایسے افراد اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے جو چند دنوں کے دوران وہاں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس طرح صرف ایک رات میں ہی بغداد حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مزید 17 عراقی شہری مارے گئے۔
عراق میں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کے خلاف عوامی احتجاج کی دوسری لہر گزشتہ جمعے کے روز شروع ہوئی تھی، 29 اکتوبر تک اس لہر کا پانچواں روز ہے، یہ مظاہرین عادل عبدالمہدی کی حکومت اور عراق میں حکمران سیاسی اشرافیہ پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے شکایت بھی کرتے ہیں کہ حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ عوام کو کس طرح کے حالات کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ملکی حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کی پہلی لہر یکم اکتوبر کو شروع ہوئی تھی جس میں بعد ازاں کچھ وقفہ بھی آ گیا تھا۔ 25 اکتوبر کو جمعے کی نماز کے بعد مظاہرے دوبارہ شدت اختیار کر گئے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ان حکومت مخالف مظاہروں میں اب تک مجموعی طور پر کم از کم بھی 250 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بنتی ہے۔
یکم اکتوبر کو ہزاروں مظاہرین نے بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ انکے مطالبات میں بدعنوانی کا خاتمہ، بے روزگاری میں کمی اور بہتر عوامی سہولیات کی فراہمی شامل تھے۔ مظاہرین نے شہر کے حکومتی عمارات اور غیرملکی سفارت خانوں والے گرین زون میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق عراقی عوام میں ملک میں ہر جگہ پائی جانے والی کرپشن اور شدید نوعیت کے اقتصادی مسائل کے خلاف بہت زیادہ عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ یکم اکتوبر سے حکومت کے خلاف جو عوامی مظاہرے شروع ہوئے، ان کی وجہ سے داخلی سطح پر قدرے استحکام کی وہ صورت حال بھی ختم ہو گئی، جو اس امید کا سبب بنی تھی کہ اب اس ملک میں حالات بتدریج بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
بغداد میں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت کے اقتدار میں آنے میں مقبول شیعہ مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن گزشتہ روز انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرائے جائیں۔
مقتدیٰ الصدر نے یہ مطالبہ اس وقت کیا جب ملکی دارالحکومت بغداد میں موجودہ حکمرانوں کے خلاف خونریز مظاہروں کے بعد ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔