کنزرویٹو پارٹی میں اسلامو فوبیا، برطانوی وزیراعظم نے معافی مانگ لی

Last Updated On 28 November,2019 05:13 pm

لندن: (ویب ڈیسک) کنزرویٹو پارٹی کے اندر اسلامو فوبیا پر برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے معافی مانگ لی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق دی گارجین میں شائع کے مطابق قبل ٹوری کے امیدوار نے بورس جانسن پر مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت آمیز رجحانات کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

کارن وال کے دورے پر جب بورس جانسن سے پوچھا کہ کیا کنزرویٹو پارٹی میں اسلاموفوبیا پر معافی مانگیں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یقیناً تمام تکالیف اور جرم کے لیے جس کے باعث تکلیف پہنچی ہو۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سب کچھ ناقابل برداشت ہے اور معاملہ ایک ملک کی حیثیت سے اتنا اہم ہے کہ ہم اس قسم کی چیزوں کی اجازت نہیں دے سکتے اور ہمیں آزادانہ تفتیش کرنی ہے۔

یاد رہے کہ بورس جانسن کی معذرت ایسے وقت سامنے آئی جب لیوٹن ساؤتھ کے کنزرویٹو امیدوار پرویز اختر نے وزیر اعظم سے ٹیلیگراف میں مسلم خواتین کے بارے غیر مناسب رویہ اختیار کرنے پر معانی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔

پرویز اختر کا کہنا تھا کہ میں اب خاموش نہیں رہ سکتا کہ ظالمانہ امتیاز میں ملوث رہوں جو نہ صرف پارٹی کے اندر بلکہ جب پالیسی کے ایجنڈے کی بات آتی ہے تو تب بھی موجود ہے۔

ٹیلی گراف میں بورس جانسن کے تبصروں کے انہیں سینئر ٹوریس کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا رہا۔ اُس وقت کے پارٹی چیئرمین برانڈن لیوس نے بھی برطانوی وزیراعظم سے معافی مانگنے کے مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل کنزریویٹو جنرل الیکشن کے امیدوار کو مسلم مخالف زبان استعمال کرنے پر معطل کردیا گیا تھا جو برطانوی وزیراعظم کے لیے باعث شرمندگی بنا۔

وزیر اعظم بورس جانسن کو گزشتہ برس ایک کالم میں برقع پہننے والی مسلمان خواتین کے لیے ’بینک ڈاکو‘ اور ’لیٹر باکس‘ کے الفاظ استعمال کرنے پر کڑی تنقید کا سامنا تھا۔ علاوہ ازیں بورس جانسن نے پارٹی کے اندر اسلاموفوبیا کے خلاف آزادانہ تحقیقات سے بھی انکار کیا تھا۔

دوسری جانب برطانیہ کی سینئر خاتون سیاستدان سعیدہ وارثی نے گزشتہ برس اسلامو فوبیا کے خلاف مہم چلائی تھی۔ انہوں نے پرویز اختر کے موقف کی تعریف کی اور کہا کہ بورس جانسن کا معافی مانگنا اچھی ابتدا ہے۔

انہوں نے بی بی سی ریڈیو 4 کے ورلڈ ون ون پروگرام میں کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آخر کار ہم ایک ایسے مقام پر پہنچنا شروع کر رہے ہیں جہاں سے مسئلے کی حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کردیں۔