انقرہ: (ویب ڈیسک) لیبیا کی سرکاری انتظامیہ کو حفتر قوتوں کے خلاف ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لیے ترکی سامنے آ گیا، صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ درخواست ملتے ہی لیبیا میں فوج بھیج دیں گے۔ ہم دوست ملک کی مدد کیلئے تیار ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق رجب طیب اردوان نے اے کے پارٹی کے مرکزی دفتر میں ضلعی چیئرمینوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی تہذیب کے گہوارے کے حامل جغرافیہ میں واقع ہے۔ جغرافیہ قدرے وسیع و عریض ہے، بحیرہ روم اور شمالی افریقا بھی اسی کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ لیبیا غازی مصطفی کمال پاشا کی ایک یاد گار اور ورثہ ہے۔ مصطفی کمال نے لیبیائی بھائیوں کو قابض قوتوں کے خلاف منظم کیا اور ان کے شانہ بشانہ جنگ کرتے ہوئے انہیں آزادی دلائی۔ حتی یہ اس جنگ میں زخمی بھی ہوئے جن کا نشان ان کی پیشانی پر موجود تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی افریقا کے پورے رقبے کے ساتھ ساتھ لیبیا میں بھی خود مختار دوست آباد ہیں۔ موجودہ لیبیائی صدر کے عزیز و اقارب ترکی میں مقیم ہیں۔ ہم نے باغی جنرل کی جانب سے شروع کردہ حملوں کی شروع سے ہی مخالفت کی ہے۔ ہم نے طرابلس انتظامیہ کو ہر طرح کی امداد فراہم کی ہے اور کرتے رہیں گے۔ لیبیا سمندری حقوق کی رو سے ہمارا ایک ہمسایہ ملک بھی ہے۔
لیبیا کو ترک فوجی روانہ کرنے کے معاملے کا بھی ذکر کرنے والے اردوان کا کہنا تھا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم فوجی روانہ کریں گے؟ ہم جہاں سے بھی مدد کی اپیل کی جاتی ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسوقت بھی ہمیں اس چیز کی دعوت دی گئی ہے جس کا جواب ہم ضرور دیں گے۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ معاہد ہ طے پانے والے اختیاراتی علاقو ں کے حوالے سے نقشوں کا ہم نے اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے میں اندراج کرایا ہے۔ مقصد بحیرہ روم میں کسی کے حقوق کو ضبط کرنا نہیں، صرف اپنے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ اگر قدم نہ اٹھاتے تو پھر ترکی کو ساحلوں تک ہی محدود رکھنے کی چالیں چلی جاتیں۔ ہم اس کھیل کے سامنے خاموش تماشائی نہیں بن سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترک قومی اسمبلی میں تعطیلات کے ختم ہوتے ہی ہم اولین طور پر فوجی روانہ کرنے کے اجازت نامے پر بحث چھیڑیں گے۔ جس کے بعد اس پر عمل درآمد کا آغاز کیا جائیگا۔ مختلف عرب و یورپی ممالک کا تعاون و حمایت حاصل ہونے والے باغی جنرل کے برخلاف ملکی انتظامیہ سے ہر ممکنہ تعاون کیا جائیگا۔