ڈونلڈ ٹرمپ بہروپیا، مذاکرات کیلئے تیار مگر امریکا سے نہیں: آیت اللہ خامنہ ای

Last Updated On 17 January,2020 05:00 pm

تہران: (ویب ڈیسک) ایران کے دارالحکومت تہران میں 2012ء کے بعد پہلی مرتبہ جمعے کی نماز کی امامت کرتے ہوئے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بہروپیا ہے جو ہماری عوام کی حمایت کا دکھاوا کرتا ہے۔ ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر امریکا سے نہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ قوم کی پیٹھ پر زہریلا خنجر گھونپے گا، امریکی فضائی حملے میں ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد اس کے جنازے پر لوگوں میں غم و غصہ عوام کا اپنے وطن سے محبت کا اظہار تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے داعش کے خلاف لڑنے والے سب سے موثر کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی پر بغداد میں بزدلانہ حملہ کیا۔

رد عمل میں ایران نے عراق میں امریکی فوج پر بیلسٹک میزائل سے حملے کیے تھے تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ بعد ازاں ایران نے یوکرین کے مسافر طیارے کو تہران ایران پورٹ سے ہوا میں اڑان بھرنے کے تھوڑی دیر ہی گرادیا تھا جس کے بتیجے میں طیارے میں سوار تمام افراد، جن میں زیادہ تر تعداد ایرانیوں کی تھی، جاں بحق ہوگئے۔

امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے طیارے کو گرائے جانے کے واقعے کو تلخ حادثہ قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے ایران کو اتنا ہی افسوس ہوا ہے جتنا اس کے دشمنوں کو خوشی ہوئی ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ ایران کے دشمن حادثے کو استعمال کرتے ہوئے ایران، پاسدارانِ انقلاب اور مسلح افواج پر سوالات کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک اتنے کمزور ہیں کہ ایران کو گھٹنوں پر کبھی نہیں لاسکتے، ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر امریکا سے نہیں۔

یاد رہے کہ ایران میں آٹھ سال بعد سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی امامت میں نمازِ جمعہ ادا کیا گیا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

تہران کی مسجد ِمصلیٰ میں خطاب کرتے ہوئے سپریم لیڈر نے کہا امریکا نے جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنا کر اپنی دہشت گردی کی فطرت کو دکھایا، گزشتہ 8 سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای نے جمعے کی نماز کا خطبہ خود دیا۔

اس سے پہلے انہوں نے 2012 میں ایرانی انقلاب کے 33 سال مکمل ہونے پر امامت کی تھی، حکام کے مطابق کہ ایرانی قوم نے ایک مرتبہ پھر اتحاد کا شاندار مظاہرہ کیا۔

واضح رہے کہ 3 جنوری کو امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے تھے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔

جس کے بعد 8 جنوری کو ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور 80 امریکی ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قوم سے خصوصی خطاب میں ایران کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عراق میں امریکی اڈوں پر حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور احتیاطی تدابیر کی وجہ سے کوئی امریکی اور عراقی کو نقصان نہیں پہنچا۔ 

عراق پر ایرانی حملے کے کچھ گھنٹے بعد تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے والا یوکرین کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

یوکرینی وزیراعظم نے طیارے میں 176 افراد سوار ہونے کی تصدیق کی تھی جس میں 167 مسافر اور عملے کے 9 اراکین شامل تھے۔

یوکرینی وزیر خارجہ نے بتایا تھا کہ طیارے میں 82 ایرانی، 63 کینیڈین، سویڈش، 4 افغان، 3 جرمن اور 3 برطانوی شہری جبکہ عملے کے 9 ارکان اور 2 مسافروں سمیت 11 یوکرینی شہری سوار تھے۔

9 جنوری کو ایران نے حادثے میں تباہ ہونے والے یوکرین کے مسافر طیارے کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ دوران سفر مسافر طیارے میں آگ بھڑک جانے کے بعد مدد کے لیے ایک ریڈیو کال بھی نہیں کی گئی جبکہ طیارے نے ایئرپورٹ کے لیے واپس جانے کی کوشش کی تھی۔

ایرانی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تہران کے امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کے کچھ ہی منٹ کے بعد یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائن کے بوئنگ 737 میں اچانک ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی اور وہ گر کر تباہ ہوگیا تھا۔

خیال رہے کہ حادثے کے بعد عالمی رہنماؤں نے طیارہ حادثے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران پر طیارے کی تباہی کا الزام عائد کیا تھا۔

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ طیارہ ایران کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے تباہ ہوا جبکہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے آسٹریلین ہم منصب اسکاٹ موریسن نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے تھے۔

علاوہ ازیں 9 جنوری کو نیویارک ٹائمز نے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی، جس میں ایران میں یوکرینی طیارے پر میزائل فائر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے اس ویڈیو کی تصدیق کا بھی دعویٰ کیا تھا۔

ایران نے تباہ ہونے والے یوکرین کے طیارے کی تحقیقات میں بوئنگ اور یوکرین دونوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔

بعد ازاں ایران نے طیارہ مار گرانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ارادی طور پر ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے طیارے کو نشانہ بنایا گیا۔

ایران کی عدالت نے اعلان کیا تھا کہ یوکرین کے مسافر طیارے کو مار گرائے جانے کے واقعے کے ذمے داران کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

 

Advertisement