نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت کی تین ریاستوں، کیرالہ، راجستھان اور پنجاب، کے بعد مغربی بنگال کی اسمبلی نے بھی مودی سرکار کی طرف سے متعارف کرائے گئے کالے متنازع قانون کیخلاف قرار داد منظور کر لی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مغربی بنگال کی اسمبلی میں متنازع شہریت ترمیم قانون کیخلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ہے۔ قرارداد میں وفاقی حکومت سے متنازع قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
متنازع شہریت ترمیم قانون کیخلاف قرارداد منظور کرنے والی مغربی بنگال چوتھی اسمبلی بن گئی ہے اس سے قبل راجھستان، کیرالہ اور پنجاب اسمبلیوں نے بھی اس قانون کو مسترد کردیا تھا تاہم مودی سرکار روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنر جی نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری حکومت مذہبی منافرت پر مشتمل ایسے کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں کرے گی جس سے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار ہوتا ہو۔ متنازع شہریت ترمیمی قانون انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی ہے۔
یورپی یونین میں بھارتی متنازع شہریت ترمیم قانون اور مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیوں پر بحث کیلئے یورپی یونین میں موجود قرار داد کے بعد مودی سرکار کو مرچیں لگ گئیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف یورپی پارلیمان میں پیش ہونے والی قراردادوں پر رواں ہفتے بحث کے بعد ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہ قراردادیں ارکان کی اکثریت نے پارلیمنٹ میں پیش کی ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس کا ایجنڈا کے مطابق اجلاس 29 جنوری کو بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہو گا۔ اجلاس میں پارلیمنٹ کے تمام ارکان شرکت کریں گے اور چھ قراردادوں پر بحث کی جائے گی جبکہ 30 جنوری کو ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ قراردادیں منظور ہو جانے کے بعد انہیں بھارتی حکومت، پارلیمان اور یورپی کمیشن کے سربراہان کو بھیجی جائیں گی۔
اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق پہلے یورپی کمیشن کے نائب صدر جوسیپ بوریل بھارت کے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 پر بیان دیں گے۔
ایجنڈے میں مزید کہا گیا ہے کہ یورپی یونین مقبوضہ کشمیر کے حالات پر ستمبر، 2019 میں بحث کر چکی ہے تاہم اس معاملے پر ووٹ نہیں ڈالے گئے تھے۔
یورپی یونین میں جمع کرائی گئی قرارداد کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں شہریت کا تعین کرنے کے طریقے میں انتہائی خطرناک طور پر تبدیلی کی گئی ہے۔ لوگوں کے خدشات کو دور کرنے اور اصلاحات کی بجائے حکومت کے متعدد رہنما مظاہرین کو بدنام کرنے، ان کی تذلیل کرنے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں
دوسری طرف بھارت کو یورپی یونین کی قرارداد کے بعد مرچیں لگ گئی ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو ایسے اقدام نہیں اٹھانے چاہئیں، جو جمہوری طور پر منتخب ممبران پارلیمان کے اختیارات اور اتھارٹی پر سوال کھڑے کریں۔
بھارتی حکام نے سی اے اے کو اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور قانون پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بحث کے بعد جمہوری طریقے سے بنایا گیا ہے۔ "
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کے ڈیڑھ سو سے زیادہ قانون سازوں نے مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کے تجارتی معاہدے سے قبل انسانی حقوق کے حوالے سے سخت ضابطے اور ان کے نفاذ کے لیے موثر میکانزم طے کیے جائیں۔
یورپی یونین کے اراکین پارلیمان نے جموں و کشمیر کی صوررت حال سے نمٹنے میں ہندو قوم پرست جماعت کے طریقہ کار پر بھی سخت نکتہ چینی کی تھی اور گزشتہ اکتوبر میں چند اراکین پارلیمان کو کشمیر کا دورہ کرائے جانے پر اعتراض کیا تھا۔
یورپین فری الائنس گروپ کا کہنا تھا کہ ہم اس طرح کے دورے کو مودی حکومت کے قوم پرستی کے ایجنڈے کو نافذ کرنے اور ان کی حکومت میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو درست ٹھہرانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔
گزشتہ برس بھارت کے دورے کے دوران جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے بھی کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ یر پائیدار اور چھے نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع بل کو منظور کرتے ہوئے ایک قانون بنایا گیا تھا جس میں پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، مسیحی، جین، پارسی، بدھوں کو شہریت دی جائے گی جبکہ اس فہرست میں مسلمان شامل نہیں تھے۔