دوحہ: (روزنامہ دنیا) افغانستان میں امن کیلئے امریکا اور طالبان معاہدے کے قریب پہنچ گئے، افغان میڈیا نے دعویٰ کیا کہ معاہدے سے قبل تشدد میں کمی کیلئے ایک ہفتے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے جمعرات کو افغان حکومت نیٹو کی جانب سے طالبان پر حملے اور آپریشنز کی کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں، طالبان کے ترجمان نے بھی غیر معمولی طور پر اپنی کارروائیوں سے متعلق کوئی تفصیل جاری نہیں کی، دونوں طرف مکمل خاموشی ہے۔
ایک افغان صحافی نے دعویٰ کیا کہ تشدد میں کمی کے حوالے سے طے پانیوالا ہفتہ اگر کامیاب رہا تو اس کے بعد امکان ہے کہ 29 فروری کو باقاعدہ امریکا اور طالبان دوحہ میں معاہدے پر دستخط کریں گے، جس کے پانچ روز بعد طالبان اور افغان حکومت کے مابین براہ راست مذاکرات ہونگے۔ جس کے بعد تقریباً آٹھ ماہ بعدا مریکی فوج کے انخلا کا مرحلہ آئے گا۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے برسلز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تصدیق کی کہ امریکا اور طالبان نے تشدد میں 7 دن تک کمی کے ایک منصوبے پر مذاکرات کیے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں اس تجویز کے حوالے سے اتحادیوں سے مشاورت کیلئے برسلز آیا ہوں، تجویز کے حوالے سے ہماری مفید ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
مارک ایسپر نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تفصیلات جلد جاری کریں گے۔ افغان مسئلے کا حل صرف سیاسی معاہدہ ہے، اس حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ امن کیلئے طالبان کی سنجیدگی کا جائزہ لینے کیلئے تشدد میں کمی کا 7 روزہ منصوبہ ہی کافی ہے، یہ شرائط پر مبنی ہے۔
ادھر پینٹا گون کے ایک عہدیدار نے سی این این کو بتایا کہ امن معاہدہ اس ہفتے ہو جائے گا، طالبان کے ایک عہدیدار نے الجزیرہ کو بتایا کہ پیش رفت ہوئی ہے اور معاہدے کا جلد اعلان کر دیا جائے گا، معاہدے اور تشدد میں کمی کے حوالے سے جلد بیان جاری کیا جائے گا۔