کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان کے دارالحکومت میں حزب وحدت پارٹی کے رہنما عبد العلی مزاری کی 25 ویں برسی کی تقریب کے دوران حملہ کیا گیا اور فائرنگ کے باعث 32 افراد جاں بحق ہو گئے۔
افغان میڈیا کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ محمد کریم خلیل تقریر کررہے تھے جب کہ دھماکے کے وقت افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی اور دیگر اہم سیاسی رہنما بھی تقریب میں شریک تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس حملے میں 32 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ عورتوں اور بچوں سمیت 60 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
ترجمان افغان وزارت داخلہ نصرت رحیمی نے دھماکے میں 29 افراد کے جاں بحق اور 61 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ چار حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دہشتگرد گروپ خراسان نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی، سربراہ امن کونسل، سیکنڈ ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اور دیگر شخصیات تقریب میں شریک تھیں۔
سیکنڈ چیف ایگزیکٹو کا کہنا تھا کہ دھماکے میں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی محفوظ رہے۔
افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ مسلح حملہ آور نے تقریب کے مقام کے قریب واقع زیر تعمیر عمارت سے حملہ کیا جبکہ اب تک کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
افغان میڈیا کے مطابق طالبان نے ٹوئٹر کے ذریعے حملے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی خبریں کو مسترد کردیا ہے۔
#Clarification
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) March 6, 2020
The attack on a gathering in #Kabul city has not relation with the Mujahidin of Islamic Emirate. https://t.co/tS76YDi6kc
افغان میڈیا کا بتانا ہے کہ گزشتہ سال بھی اس تقریب پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 11 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
دوسری طرف افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ کابل کی تقریب میں ہونے والا حملہ انسانیت اور افغانستان کے قومی اتحاد کے خلاف ہے، میں نے عبد اللہ عبد اللہ اور پروفیسر خلیلی سے دریافت کی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پایا جسکے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کےبدلے طالبان کو ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں لیکن افغان صدر کی جانب سے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کے بعد طالبان نے انٹراافغان مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
طالبان نے کابل سے دوحہ بھیجے جانے والے 6 رکنی وفد سے ملاقات بھی نہیں کی اور کہا ملاقات صرف قیدیوں کی رہائی سے متعلق بااختیار افراد سے ہی کی جائے گی۔
معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔
معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔
امن معاہدے کے چند گھنٹے بعد ہی افغان صدر اہم شرط سے پیچھے ہٹ گئے، معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔
معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔
واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر میں افغانستان کے سیاسی رہنما اور مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر کو ٹیلیفون کیا تھا، دونوں کے درمیان امن مفاہمتی عمل پر بھی بات چیت کی گئی تھی۔