کابل: (دنیا نیوز) افغانستان کے نو منتخب صدر اشرف غنی نے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد 1500 طالبان کی رہائی کے لیے حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ افغان حکومت اپنی قید میں موجود 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان اپنی قید میں موجود 1500 افغانوں کو رہا کریں گے۔
صدر اشرف غنی کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق بقیہ 3500 طالبان قیدیوں کی رہائی بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بعد بتدریج عمل میں آئے گی اور ہر دو ہفتوں بعد 500 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جس کا دارومدار طالبان کی طرف تشدد میں کمی پر ہو گا۔
افغان صدر اشرف غنی کا یہ حکم نامہ ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا ہے جب امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تشدد کا درجہ ناقابل قبول ہے۔ طالبان نے افغانستان میں تعینات فورسز اور افغان شہروں میں حملوں کا سلسلہ روک دیا ہے مگر پھر بھی دور دراز علاقوں میں تشدد کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف طالبان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ قیدیوں کی مشروط رہائی سے متعلق افغان صدر کا حکم نامہ دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح طور پر امن معاہدے میں درج ہے کہ پہلے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور پھر افغان ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع ہو گا۔
سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے قیدیوں کی کسی بھی مشروط رہائی پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ اگر کوئی اس کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ اُس امن معاہدے کے خلاف ہو گا جس پر ہم نے 29 فروری کو دستخط کیے تھے۔
کابل میں جاری سیاسی بحران اور تشدد میں اضافے کے باوجود امریکا نے افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
یاد رہوے کہ امریکا نے فروری کے آخر میں میں طالبان کی قیادت کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت پہلے مرحلے میں پینٹاگون اگلے چھ ماہ کے اندر اپنی افواج کی تعداد 12000 سے گھٹا کر 8600 کردے گا ۔
معاہدے کے مطابق چودہ مہینوں کے اندر اپنی، اپنے اتحادیوں اور دیگر شریک ملکوں کی پوری فوج کو افغانستان سے نکال لے گا۔ اس میں غیر سفارتی اہلکار، سویلین، پرائیوٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز، تربیت دینے والے، مشیر اور معاون اہلکار شامل ہیں۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا بھی کہنا تھا کہ امریکی افواج کی تعداد 8600 تک لانے کے بعد صورت حال کا تجزیہ کیا جائے گا کہ آیا طالبان معاہدے کی شرطوں پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔