لاہور: (سپیشل فیچر) کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ہلاکو خان اور چنگیز خان کے علاوہ بھی ظالم ترین حکمران گزرے ہیں جن کے ہاتھ لاکھوں افراد کے خون سے رنگے ہیں۔
چینی نیشنلسٹ پارٹی کے سربراہ چیانگ کائی شیک بھی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کے ظلم کی انتہا دیکھئے، زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی خاطر اپنے ہی عوام کے لئے اناج کی فراہمی روک دی، قحط جیسی صورتحال پیدا ہونے سے 17 لاکھ سے 25 لاکھ تک چینی ہلاک ہو گئے تھے۔
چینی عوام اس کے جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، مگر جاپانی فوجی ظالم سابق چینی حکمرانوں کے ساتھ تھے۔ جاپان نے بھی چین کی آمرانہ حکومت کے ساتھ مل کر چینی عوام کیخلاف کارروائیاں کیں جس سے چین کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔
اس خوفناک جنگ میں لاکھوں قتل ہوئے۔ لہولہان ہونے والے افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ بے شمار چینی مختلف امراض میں مبتلا ہو کر آزادی کا سورج دیکھے بغیر چل بسے جبکہ چین کو بدترین قحط کا الگ سے سامنا کرنا پڑا۔
المناک پہلو یہ تھا کہ حکمران نیشنلسٹ پارٹی شہریوں پر ظلم ڈھانے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتی تھی۔ ابتدا میں بے بس عوام ریاستی جبر کا نشانہ بنتے رہے۔ ظالم اور غاصب حکمرانوں کا کم ہی نقصان ہوا لیکن دوسری جنگ عظیم میں پسپائی کے بعد روسی اور جاپانی فوجیوں کے چھوڑے ہوئے ہتھیاروں سے چینی عوام نے آمرانہ حکومت کیخلاف زبردست جنگ لڑی۔
صرف پانچ سال کے اندر اندر حکومتی عناصر جنوب مشرقی ایشیا میں تائیوان تک محدود ہو کر رہ گئے۔ دیگر علاقوں پر عوام کا قبضہ ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران جنگ، قحط، بیماریوں اور دیگر اسباب کی بدولت 60 لاکھ سے 1.85 کروڑ تک ہلاکتیں ہوئیں۔ یوں چیانگ کائی شیک کا نام ظالم حکمرانوں کی فہرست میں نمایاں ہے۔
سینٹرل ایشیا میں منگول قوم جنگجو تصور کی جاتی ہے۔ انہوں نے یورپ اور ایشیا کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنے کا قصد کیا۔ یہ گھڑ سوار جنگجو سینٹرل ایشیا سے 13ویں صدی سے نکلے اور یورو ایشیا میں اپنی سلطنت قائم کرنے لگے۔
ان کے زیر قبضہ علاقے چین، روس، برما تمام سینٹرل ایشیا، بھارت، ایران، عراق، ترکی، بلغاریہ، ہنگری اور پولینڈ شامل تھے۔ ہزاروں گھڑ سوار جنگجو منگولوں نے تقریباً آدھی دنیا پر قبضہ جما لیا تھا۔ اسلامی ممالک اور موجودہ پاکستان میں یہ قدم جمانے میں ناکام رہے یورپ بھی ان کے تسلط سے کافی حد تک محفوظ رہا۔
تہذیب وانسانیت منگولوں کی سرشت میں شامل نہ تھی۔ وحشت وبربریت ان کے پورے دور میں چھائی رہی۔ بلکہ یہ ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ 1211ء سے 1337ء تک انہوں نے 1 کروڑ 37 لاکھ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔
معروف محقق ایان فریزیر کی ایک تحریر کے مطابق منگولوں کے راستے میں آنے والے ترقی یافتہ شہر اور سرسبز و شاداب کھیت ایسے اجڑ گئے جیسے کسی ستارے کے ٹکراؤ سے برباد ہوئے ہوں۔
منگولوں کی وحشت کا منہ بولتا ثبوت تباہی اور کھنڈر کا منظر پیش کرنے والافارس کا شہر نیشا پور ہے۔ اس شہر سے گزرتے ہوئے 1221ء میں منگولوں نے 17 لاکھ لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگے، تقریباً تمام شہری مارے گئے۔
عباسی خلیفہ کے دارالحکومت بغداد پر قبضہ کے دوران 7 دن قتل عام جاری رہا جس میں 2 لاکھ سے 10 لاکھ تک شہری ہلاک ہوئے۔ مورخین چنگیز خان، ہلاکو خان کی ہلاکتوں کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ کچھ اعداد وشمار بڑا چڑھا کر بیان کیے گئے مگر کچھ کم بھی ہو سکتے ہیں۔
منگولوں نے ناصرف ان اعدادوشمار کی کبھی تردید نہیں کی بلکہ خود بھی انہوں نے اسی قسم کے اعدادوشمار بیان کیے۔ ایک اندازے کے مطابق اور چنگیزوں کی رپورٹ کے مطابق ہلاکو اور چنگیز خان نے 4 لاکھ لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ مورخین کی تحقیق کے مطابق منگولوں کی 120 سالہ تاریخ کے مطابق 1 کروڑ 20 لاکھ شہری ہلاک ہوئے۔
پہلی جنگ عظیم میں 70 لاکھ شہری اور 90 لاکھ فوجی مارے گئے۔ گولہ بارود ترقی یافتہ نہ تھا۔ افرادی قوت بہت تھی اور براہ راست لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا چنانچہ جانی نقصان 1 کروڑ 60 لاکھ تک پہنچ گیا۔
صنعتی انقلاب کے زمانے میں مشین گنوں، توپوں اور ٹینکوں نے معمولی ہتھیاروں کی جگہ لے لی۔ اس سے زیادہ تر دفاعی مقاصدکے لیے استعمال کیا گیا۔
لہٰذا اسی لیے فرسٹ بیٹل آف مارلے میں صرف 2.50 لاکھ فرانسیسی ہلاک ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اتنی تعداد میں جرمن باشندے بھی ہلاک ہوئے۔ ایک اور خون ریز جنگ بیٹل آف ورڈن تھی۔ 3 سو دنوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں اندازاً 7.25 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔
بیٹل آف سومین میں ہلاکتوں کا تخمینہ 7 لاکھ سے 11 لاکھ تک لگایا گیا ہے۔ مشرقی محاظ پر زیادہ نقصان ہوا۔ اس میں 3 لاکھ جرمن اور 24 لاکھ روسی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اکثریت کی موت کا سبب میدان جنگ میں پیدا شدہ اثرا ت تھے۔ یہ جنگ اگرچہ سرزمین فرانس پر لڑی گئی مگر فرانسیسی شہری صرف 40ہزار ہلا ک ہوئے۔
دوسری جنگ عظیم 6 سالوں پر محیط رہی۔ 1939ء سے 1945ء تک جاری رہنے والی اس جنگ میں 21 لاکھ سے 25 لاکھ فوجی ہلاک ہوئے، باقی جانی نقصان شہریوں کا ہوا۔
پہلی جنگ عظیم کے برعکس دوسری جنگ عظیم صحیح معنوں میں عالمی جنگ تھی جس میں تمام دنیا شریک تھی۔ اس جنگ میں 2 کروڑ 70 لاکھ روسی فوجی اور شہری مارے گئے۔
کسی بھی جنگ میں کسی ایک ملک کا سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔ 2 کروڑ چینی، 70 لاکھ جرمن اور 25 لاکھ جاپانی مارے گئے جبکہ 10 ہزار فوجی اور 4.25 لاکھ جاپانی بھی ہلاک ہوئے۔