واشنگٹن: (ویب ڈیسک) افغانستان میں امن کے لیے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اسی دوران امریکی افواج کی تعداد کم کر کے دو ہزار پانچ سو کر دی گئی ہے جبکہ قائم مقام امریکی سیکرٹری دفاع کرس ملر نے کہا ہے کہ عراق میں بھی تعداد کم کر دی ہے، یہاں پر بھی تعداد 2500 رہ گئی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق جمعے کو فوج نکالنے کے معاہدے پر عمل کے نتیجے میں کانگریس کی جانب سے عائد پابندی کی خلاف ورزی ہوئی۔
امریکی کانگریس نے دو ہفتے قبل منظور کیے گئے قانون میں پینٹاگون سے کہا تھا کہ جن ملکوں میں امریکی فوج کی جو تعداد موجود ہے اس کو برقرار رکھا جائے۔
طالبان سے معاہدے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال نومبر میں افغانستان میں افواج کی تعداد کی کمی کی منظوری دی تھی۔
جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد گزشتہ 19 سال کی سب سے کم سطح پر آ گئی ہے۔ فروری 2020 میں افغان طالبان سے معاہدے کے تحت امریکی افواج کی تعداد مرحلہ وار کم کی جائے گی اور مئی 2021 تک تمام امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ طالبان کے ساتھ معاہدے پر کس طرح عمل کرے گی۔
نومنتخب صدر جوبائیڈن افغانستان میں انسداد دہشت گری کے لیے فوج کا ایک حصہ رکھنے کی بات کرتے رہے ہیں تاکہ القاعدہ جیسے شدت پسند گروپ کو امریکا پر حملوں سے روکا جا سکے تاہم ان کو افغانستان کے بارے میں بعض سوالات کا سامنا ہے جن میں سے ایک سوال یہ ہے کہ وہ امریکی افواج کو کس حد تک واپس بلائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے مختصر بیان میں افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا۔
افغانستان میں 2001ء اور عراق میں 2003ء سے جنگ لڑتی امریکی افواج کی واپسی کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ میں ہمیشہ کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں کو روکنے کے عزم پر کاربند رہوں گا۔
امریکی افواج کے کئی سینیئر افسران افغانستان سے فوج کے تیزی سے انخلا کے مضمرات سے آگاہ کرتے رہے ہیں تاہم وزیر دفاع کرسٹورفر ملر نے نومبر 2020 میں کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے صدر ٹرمپ کے حکم پر عمل درآمد کرائیں گے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان سے ڈیڑھ ہزار امریکی فوجی واپس اپنے ملک گئے جبکہ اسی عرصے میں عراق میں بھی افواج کی تعداد کم کی گئی۔
قائم مقام امریکی سیکریٹری دفاع نے کہا کہ دونوں ممالک میں امن کے قیام میں پیشرفت پر فوجیوں کی تعیناتی میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے، امریکی حکام اور اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ سے غافل نہیں ہیں، اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغانستان اور عراق میں 25 ،25 سو فوجی تعینات رہیں گے۔
کرس ملر نے کہا کہ امریکا دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے، وہ افغانیوں کی زیر قیادت امن کے قیام اور مستقل جنگ بندی کی نفاذ کو خوش آمدید کہتے ہیں، فوجیوں کی تعداد میں مزید کمی کا دارومدار افغان حکومت اور طالبان رہنماؤں کے درمیان امن مذاکرات کے نتائج پر ہے۔