نئی دہلی : (دنیانیوز ) ہندو توا نظریات کے حامی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں ہندوستان اسلامو فوبیا کا گڑھ بن چکا ہے جہاں بھارتی مسلمان شدید سماجی تفریق، معاشی ابتری اور سیاسی تنہائی کا شکار ہیں جس کا اعتراف بین الاقوامی اداروں نے بھی کیا ہے۔
کونسل فار فارن ریلیشنز کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور بھارت کی مجموعی آبادی کا 15 فیصد ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 5 فیصد ہے جب کہ بی جے پی میں کوئی مسلمان پارلیمنٹرین ہی نہیں ہے۔
سٹمسن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مغربی بنگال کی 26 فیصد آبادی مسلمان لیکن پولیس میں حصہ صرف 7 فیصد ہے، آسام کی 31 فیصد آبادی مسلمان جبکہ پولیس میں صرف 10 فیصد ہیں۔
خود بھارتی ادارہ شماریات کی 2020 کی رپورٹ سے مسلمان مخالف اقدامات کی نشاندہی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2 فیصد سے بھی کم مسلم خواتین کو یونیورسٹی میں داخلہ ملتا ہے۔
آکسفیم نے مسلم طبقے کے حوالے سے معاشی ابتری کو رپورٹ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے میں مسلمانوں کا حصہ 23 فیصد سے گر کر 15 فیصد رہ گیا ہے جب کہ نجی شعبے میں مسلمانوں کی تنخواہ ہندوؤں سے 49 فیصد کم ہے۔
مسلمانوں کے خلاف ملازمتی تفریق گزشتہ 16 برس میں 9 فیصد سے بڑھ کر 68 فیصد کی خوفناک حد تک پہنچ گئی ہے۔
اکنامک ٹائمز میں کہا گیا ہے کہ 500 بڑی بھارتی کپمنیز میں صرف 2 فیصد مسلمان اعلیٰ عہدوں پر ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ مودی سرکار یو سی سی، شہریت، گاؤ رکھشک، طلاق اور حجاب سے متعلق قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے، 1947 سے اب تک 50 ہزار سے زائد مسلم مقدس مقامات کو نذر آتش یا مندروں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔
اس حوالے سے رواں سال انتہا پسند ہندو رہنما رنجیت سوارکر نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا اور ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہ کریں ، انتہاپسند رہنما کاکہنا ہے کہ مسلمانوں سے نمٹنے کے لیے ہٹلر کے طریقے اپنانا ہوں گے۔
دوسری جانب انتہا پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لو جہاد اور حلال جہاد جیسی مہمات بھی جاری ہیں۔