لاہور : (ویب ڈیسک) گزشتہ روز فلسطین کے مزاحمتی گروپ حماس نے غزہ سے اسرائیل پر اچانک حملہ شروع کیا جو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان برسوں سے جاری سب سے سنگین کشیدگی میں سے ایک ہے۔
اسرائیلی فورسز اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے، دونوں اطراف سے سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں ۔
یہ حملہ مصر اور شام کی جانب سے سنہ 1973 میں کی جانے والی اچانک کارروائی کی 50 ویں سالگرہ کے ایک دن بعد کیا گیا جس نے اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی شروعات کر دی تھی۔
عرب میڈیا کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملوں میں ہلاک ہونیوالے اسرائیلیوں کی تعداد 300 ہوگئی جبکہ 1500سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
غزہ پرجوابی کارروائی کے نتیجے میں اسرائیلی بمباری سے 400 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 1900سے زائد زخمی ہوچکے ہیں ۔
حماس کیا ہے ؟
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل پر حملہ کرنے والی فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس 1987 میں مغربی کنارے (ویسٹ بینک) اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف شروع ہونے والی فلسطینی مزاحمت کے آغاز کے بعد قائم ہوئی تھی۔
اس کی بنیاد 1980 کی دہائی میں شیخ احمد یاسین نے رکھی تھی۔
حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے ، پہلا گروہ فلاحی و معاشرتی امور جیسے کہ سکولوں ، ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کا حامی ہے جبکہ دوسرا گروہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والا ہے۔
اسرائیل کے خلاف کارروائیاں زیادہ تر فلسطین کی زیر زمین عزالدین القسام بریگیڈ سر انجام دیتی ہے ، حماس کے منشور کے مطابق یہ گروہ اسرائیل کی تباہی کے لیے پُرعزم ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ حماس کے عسکری ونگ کی طاقت بڑھتی رہی اور 2005 کے بعد حماس نے فلسطینی سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔
2006 کے عام انتخابات میں حماس نے غزہ پٹی میں اکثریت حاصل کی اور بعد ازاں 2007 میں فتح اور حماس کے مابین پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں غزہ پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔
حماس نے غزہ پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں ، ان جنگوں کے درمیان حماس نے دوسرے گروپوں کو اسرائیل پر راکٹ فائر کرنے کی اجازت دی، دوسری جانب اسرائیل نے حماس پر بارہا فضائی حملے بھی کیے ہیں اور مصر کے ساتھ مل کر 2007 سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
غیر ملکی میڈیا ماضی میں حماس کو ’شدت پسند اسلامی تنظیم‘ قرار دیتا تھا لیکن اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری موجودہ تنازعے میں اسرائیل، امریکا، یورپی یونین اور برطانوی میڈیا اس تنظیم کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتے رہے ہیں ۔
حماس ایک علاقائی اتحاد کا حصہ ہے جس میں ایران، شام اور لبنان میں حزب اللہ نامی گروپ شامل ہیں، جو مشرق وسطیٰ اور اسرائیل میں امریکی پالیسی کی وسیع پیمانے پر مخالفت کرتے ہیں جبکہ اس کی طاقت کا مرکز غزہ ہے، حماس کے فلسطینی علاقوں میں بھی حامی ہیں، اور اس کے رہنما قطر سمیت مشرق وسطیٰ میں پھیلے ہوئے ہیں۔
غزہ کی پٹی کیا ہے؟
غزہ کی پٹی اسرائیل، مصر اور بحیرہ روم کے درمیان 41 کلومیٹر (25 میل) لمبا اور 10 کلومیٹر چوڑا علاقہ ہے، اس علاقے میں تقریباً 23 لاکھ لوگ آباد ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کی ساحلی پٹی پر فضائی حدود کے ذریعے کنٹرول حاصل ہے، اسی طرح مصر کو غزہ کے سرحدی بارڈر پر کنٹرول حاصل ہے تاکہ غزہ کے اندر اور باہر جانے والے لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔
جاری معاشی مشکلات کی وجہ سے غزہ کی پٹی پر مقیم زیادہ تر آبادی غربت کا شکار ہے اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی مدد پر انحصار کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 80 فیصد آبادی کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے اور تقریباً 10 لاکھ لوگ روزانہ خوراک کی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔