اسلام آباد : (ویب ڈیسک ) ایک فرانسیسی صحافی نے کہا ہے کہ اس نے 13 سال سے زائد عرصے بعد ہندوستان چھوڑ دیا کیونکہ انہیں ورک پرمٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا، اس فیصلے کو انہوں نے "ناقابل فہم سنسرشپ" عمل قرار دیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی جمہوریت میں میڈیا کی آزادی پر تیزی سے وار کیے جارہے ہیں، خاص طور پر حساس موضوعات پر بات کرنیوالے صحافی اکثر حکومت کے زیرعتاب آتے ہیں۔
ریڈیو فرانس انٹرنیشنل اور فرانسیسی زبان کے دیگر بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس کے لیے کام کرنے والے سبسٹین فارسس نے کہا کہ مارچ میں مجھے یہ اطلاع ملنے کے بعد کہ( بطور صحافی) میرے ورک پرمٹ میں توسیع سے انکار کر دیا گیا ہے ، میں نے رواں ہفتے کے آخر میں ہندوستان چھوڑ دیا۔
پیرس میں جاری ایک بیان میں سبسٹین نے کہا کہ ہمارے لیے کام پر پابندی ایک بڑا صدمہ ہے، مجھے ہندوستان میں دنیاکے بڑے جمہوری انتخابات کہلائے جانیوالے اس ایونٹ کی کوریج سے روک دیا گیا ، میرے لیے یہ ایک ناقابل فہم سنسرشپ تھی۔
فرانسیسی صحافی نے کہا کہ میں نے نئے ورک پرمٹ کیلئے درخواست دی تھی ، لیکن رسمی اور بار بار درخواستوں کے باوجود بھی مجھے اس پابندی کا کوئی جواز یا وجہ فراہم نہیں کی گئی۔
فرانسیسی صحافی نے کہا کہ اس انکار نے مجھے میری پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے سے روک دیا اور مجھے کام کی اجازت نہیں دی گئی ، مجبوراً مجھے ہندوستان چھوڑنا پڑا۔
ان کاکہنا تھا کہ میرے خاندان کو بغیر وضاحت کے ہندوستان سے باہر نکال دیا گیا،نہ ہی کام ملا نہ کوئی رقم۔
سبیسٹین کی شادی ایک بھارتی خاتون سے ہوئی ہے جس سے انہیں اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (OCI) کا درجہ حاصل ہے، جو اسے ملک میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن مشنری سرگرمیوں، کوہ پیمائی یا صحافت کیلئے خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
فرانسیسی صحافی نے کہا کہ غیر ملکی صحافیوں کے کام پر بڑھتی ہوئی پابندیاں تشویش کا باعث ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر آزاد میڈیا کا گلا گھونٹنے کا الزام ہے، جس کے ساتھ ہی بھارت عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 159 نمبر پر آ گیا ہے۔
فروری میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک نے بھی ہندوستان چھوڑ دیا ، دو دہائیوں سے زائد عرصے تک کام کرنیوالی اس صحافی پر حکام نے "بد نیتی پر مبنی تنقیدی رپورٹنگ کا الزام لگا کر بے دخل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اسی طرح اپریل میں، آسٹریلوی اے بی سی صحافی آوانی ڈیاس نے کہا کہ انہیں بڑے مؤثر طریقے سے بے دخل کیا گیا کیونکہ انہیں پہلے ہی کہا گیا کہ ان کے معمول کےورک ویزا میں توسیع سے انکار ہوسکتا ہے۔
ڈیاس کو اس کے جانے سے ایک دن سے بھی کم وقت پہلے عارضی ویزا جاری کیا گیا تھا اور اس کاکہنا تھا کہ "ہندوستان میں مجھے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنا بہت مشکل محسوس ہوتا ہے "۔