ڈونلڈ ٹرمپ ، رئیل سٹیٹ سے سیاست تک کے سفرپرایک نظر

Published On 30 October,2024 10:57 am

نیویارک : (ویب ڈیسک ) 78 سالہ امریکی ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ جن کا صدر بننا کبھی ناقابل یقین تصور کیاجاتا تھا، ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے‘ کا عزم لیے تیسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔

امریکہ میں صدارتی انتخاب کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے، بہت سے تنازعات میں گھرے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بات پھر سے کم بیک کیا ہے ، ٹرمپ  کے خلاف ماضی میں جس قدر پراپیگنڈہ کیا گیا، وہ اُسی تیزی سے  ابھرکرسامنے آئے ، حالیہ سروے ظاہر کر رہے ہیں کہ اس بار انتخابات میں ماضی سے کہیں زیادہ کانٹے دار مقابلہ ہوگا اور کچھ بعید نہیں کہ ٹرمپ فاتح بن جائیں ۔

یہاں ہم ٹرمپ کی رنگینیوں بھری زندگی سے وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے سفر پر ایک ںظر ڈالتے ہیں ۔

14 جون 1946 میں نیو یارک شہر کے علاقے کوئنز میں پیدا ہونیوالے ڈونلڈ ٹرمپ ریئل سٹیٹ کے دولت مند کاروباری تارکین وطن فریڈ ٹرمپ اور میری اینی میکلیوڈ کے چوتھے بچے تھے ، انہیں ہائی سکول کے دنوں میں ایک نجی ملٹری اکیڈمی میں بھیجاجا چکا ہے ، 1968 میں ٹرمپ نے پینیسلوینیا یونیورسٹی کے وارٹن سکول سے بزنس میں ڈگری حاصل کی۔

کالج ختم کرنے کے تین سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ مین ہیٹن میں منتقل ہوئے، کوئنز سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو نیویارک کے امرا میں گھلنے ملنے میں شروع میں مشکل ہوئی لیکن انھوں نے اپنی بے باکی اور جسارت سے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

وراثت میں ملا رئیل سٹیٹ کاروبار

اپنے خاندانی کاروبار میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے والد سے دس لاکھ ڈالر کا ’چھوٹا سا قرض‘ لیا اور پھر اس کاروبار کو ٹرمپ آرگنائزیشن کا نام دیا، جدت اور تعیش کی مثال بنا کر اسے والد کی زندگی ہی میں آسمان پر پہنچایا، وہ ایک ایسے پراپرٹی ڈیولپر بنے جس نے نہ صرف امریکا کی مختلف ریاستوں بلکہ دبئی اور بھارت تک کاروبار میں نام کمایا۔

نیو جرسی سے بمبئی تک فلک بوس عمارتوں، کسینوز، گالف کلبوں کا جال بچھانے کے بعد وہ طویل مدت کے لیے مقابلہ حسن کے شریک مالک بنے، انتہائی شاندار کامیابیوں کی چمک کے پیچھے بینک کے قرضوں، قانونی جنگوں اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے قرضہ جات کے تاریک سائے موجود ہیں۔

ٹرمپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں،1987 میں ان کی خود نوشت دا آرٹ آف ڈیل کی 30 لاکھ سےزائد کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے،جس میں قارئین کو ان کی کامیابی کے راز بتانے کا دعویٰ کیا گیا، اس کا سیکوئیل سروائیونگ ایٹ دا ٹاپ ہو، دا آرٹ آف دا کم بیک یا دا امریکا وی ڈیزرو اور دیگر بھی ریکارڈ فروخت ہوئیں۔

1990 کی دہائی کا دھچکا

ٹرمپ کیلئے 1990 کی دہائی بڑا دھچکا ثابت ہوئی ، ان کی شادی معاشقے کی بدولت بہت ہی مہنگی طلاق پر ختم ہوئی جبکہ 1990 کی دہائی کی کساد بازاری کے سبب ٹرمپ کی دولت میں کمی آ‏ئی اور اس کی وجہ سے نیویارک کا ریئل سٹیٹ بازار بہت زیادہ متاثر ہوا، ٹرمپ دو تہائي قرضوں کے سود کی ادائیگی وقت پر کرنے میں ناکام رہے۔ 1991 میں اٹلانٹک سٹی میں ٹرمپ کے تاج محل نے دیوالیے کا اعلان کیا۔

انٹرٹینمنٹ انڈسٹری

ٹرمپ  نے تفریح کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور یہاں بھی اپنی سلطنت قائم کی، 1996 سے 2015 تک وہ مس یونیورس مقابلوں کے مالک تھے، اس کے علاوہ وہ مس یو ایس اے ، مس ٹِین یو ایس اے جیسے مقابلۂ حسن کے منتظم بھی تھے، دا اپرینٹس پروگرام کی میزبانی کی تو ریٹنگ کے ریکارڈ قائم کیے اور ان کا ایک جملہ You are Fired (یعنی تمھیں نوکری سے فارغ کیا جاتا ہے) کافی مقبول ہوا، 2007 میں انھیں ہالی وڈ واک آف فیم میں ستارہ بھی ملا۔

خاندان 

ٹرمپ کی خوانگی زندگی کی بات کی جائے تو ان کی پہلی بیوی ایوانا زیلنیکوا کا تعلق جمہوریہ چیک سے ہے، ایوانا ایتھیلیٹ اور ماڈل تھیں جن سے ان کے 3 بچے ڈونلڈ جونئیر، ایوانکا اور ایرک ہیں، 1990میں جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی جو کہ ٹرمپ کیلئے کافی مہنگی ثابت ہوئی تھی۔

ٹرمپ نے اداکارہ مارلا میپلز سے 1993 میں دوسری شادی کی جن سے ان کی بیٹی ٹیفنی پیدا ہوئیں مگر ان سے 1999 میں علیحدگی اختیار کرلی، میلانیا ٹرمپ سے شادی سن 2005 میں کی جن سے ان کا بیٹا بیرن ہے۔

ان کے والد کا انتقال سنہ 1999 میں ہوا تھا، ٹرمپ  اپنے والد سے بہت متاثر تھے۔

سیاست میں انٹری 

سنہ 1980 میں نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں 34 سالہ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ’سیاست اوچھی زندگی ہے‘ اور یہ کہ ’زیادہ باصلاحیت لوگ کاروباری دنیا کا رخ کرتے ہیں۔‘

 1987 میں ٹرمپ صدارتی امیدوار بننے کے بارے میں سوچنے لگے ، سنہ 2000 کے انتخابات سے قبل وہ ریفارم پارٹی کی جانب سے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے پر غور کر رہے تھے اور پھر سنہ 2012 میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے بھی انھوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا سوچا۔

جون 2015 میں ٹرمپ نے باضابطہ طور پر وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کی کوشش کا آغاز کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’امریکی خواب مر چکا ہے‘ تاہم انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس خواب کو زندہ کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے صدارتی دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے اپنی دولت اور کاروباری کامیابیوں کو گنوایا، ٹوئٹر، فیس بک اور ایک چینل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بیچنے کے لیے ’بھولے ہوئے امریکی مرد و زن‘ کی بات کی اور وہ انتخابی معرکے تک جا پہنچے۔

میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹرمپ مداحوں اور نقادوں کی برابر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے‘ کے نعرے کے ساتھ انھوں نے ری پبلکن پارٹی میں تمام حریفوں کو باآسانی شکست دیدی ، یوں ٹرمپ ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔

وہ پاپولر ووٹ تو نہ جیت سکے تھے مگر صدارتی الیکشن میں ہلیری کلنٹن کو انہوں نے الیکٹرول ووٹ سے ضرور ہرا دیا، 20 جنوری 2017 کو وہ امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہو ئے۔

ٹرمپ کا دور صدارت

ٹرمپ کی صدارت کے پہلے چند گھنٹوں میں ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ دور کتنا ڈرامائی ہو گا کیوںکہ اکثر وہ باضابطہ اعلانات کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے اور غیر ملکی سربراہان مملکت سے کھلے عام جھگڑتے بھی دکھائی دیے۔

ٹرمپ نے اہم موسمیاتی تبدیلی اور تجارتی معاہدوں سے دستبرداری کا اعلان کیا، سات مسلم اکثریتی ممالک سے لوگوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگائی، چین سے تجارتی جنگ چھیڑی، ریکارڈ ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا اور مشرق وسطی سے تعلقات کو یکسر تبدیل کر دیا۔

تقریبا دو سال تک ان کو ایک اور تنازع کا سامنا بھی رہا جس میں ایک خصوصی وکیل 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ کی مہم اور روس کے درمیان مبینہ اشتراک کی چھان بین کرتے رہے تاہم تفتیش میں کسی قسم کا مجرمانہ اشتراک ثابت نہیں ہو سکا تھا۔

امریکی ایوان نمائندگان، جہاں مخالف ڈیموکریٹ جماعت کی اکثریت تھی، میں ان کا مواخذہ کیا گیا تاہم سینیٹ میں، جہاں ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن پارٹی اکثریت میں تھی، یہ تحریک ناکام رہی۔

2020 میں امریکا سمیت دنیا کورونا وبا کی زد میں رہی، وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر پر زور دینے کے بجائے غیر سائنسی اقدامات کے سبب ٹرمپ کو اس عرصے میں شدید تنقید کا سامنا رہا، ٹرمپ کےدور میں کورونا سے 4 لاکھ اموات ہوئیں اور امریکا کے سابق صدر براک اوباما کے بقول ٹرمپ نے درست اقدامات کیے ہوتے تو بہت سے لوگ آج زندہ ہوتے۔

بائیڈن سے شکست

ٹرمپ نے 2020 میں دوبارہ انتخاب میں حصہ لیا مگر جو بائیڈن سے شکست کھا گئے ، اگرچہ اس سال انھیں سات کروڑ 40 لاکھ ووٹ ملے، جو اب تک کسی امریکی صدر کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔

نومبر 2020 سے جنوری 2021 تک ٹرمپ نے مہم چلائی کہ ’ووٹ چوری ہوئے‘ اور ’الیکشن میں دھاندلی ہوئی‘۔ ان کے ان دعووں کو 60 سے زیادہ عدالتی مقدمات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سیاست میں واپسی

ڈونلڈ ٹرمپ اب دوبارہ صدارت کے امیدوار ہیں، انہوں نے 91 الزامات کے ساتھ دوسری صدارتی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ

13 جولائی 2024 کو ان پر پنسلوینیا کے شہر بٹلر میں ریلی کےدوران 20 برس کے سفید فام نے قاتلانہ حملہ کیا، تھامس میتھیو کروکس کی چلائی گئی مبینہ 8 گولیوں میں سے ایک ڈونلڈ ٹرمپ کے دائیں کان کو چھوتی ہوئی گزرگئی، وہ بال بال بچے،ملزم کو موقع پر ہی مار ڈالا گیا مگر یہ ناکام قاتلانہ حملہ ان کے لیے ہمدردوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بنا، چند ہی روز بعد ری پبلکن نیشنل کنونشن میں ٹرمپ کو بطور صدارتی امیدوار باضابطہ طور پر نامزد کردیا گیا۔

ٹرمپ کا دوسری بار بھی مقابلہ جو بائیڈن سے ہونا تھا مگر مباحثے میں بری پرفارمنس کے سبب بائیڈن دوڑ سے باہر ہوگئے، ڈیموکریٹک کنونشن میں کملا ہیرس کی توثیق کی گئی اور یوں انتخابی جنگ کے حریف بدل گئے۔

 ٹرمپ بمقابلہ ہیرس

ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ کملا ہیرس کو ہرانا زیادہ آسان رہےگا کیونکہ وہ کملا کو بائیڈن کی پالیسیوں سے جوڑتے ہیں ، وہ کملا ہیرس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تاہم سروے دکھاتے ہیں کہ کملا ہیرس نے بھی مقبولیت حاصل کی ہے اور اس وقت دونوں میں سخت مقابلہ ہے۔

ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہہ رکھا ہے کہ پانچ نومبر 2024، جو الیکشن کا دن ہو گا، ’ہمارے ملکی تاریخ کا سب سے اہم دن ہو گا۔‘