طیبہ، غرب اردن: (ویب ڈیسک) فلسطین میں اعلیٰ چرچ رہنماؤں اور دنیا کے مختلف ممالک کے سفارتکاروں نے اسرائیلی آبادکاروں کے حالیہ حملوں کے خلاف شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آبادکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب ان مسیحی رہنماؤں اور سفارتکاروں نے زیادہ تر عیسائی آبادی والے فلسطینی قصبے طیبہ کا دورہ کیا، اس وفد میں برطانیہ، روس، چین، جاپان، اردن، اور یورپی یونین سمیت 20 سے زائد ممالک کے نمائندے شامل تھے۔
یروشلم کے یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارک تھیوفیلس سوم اور لاطینی پیٹریارک پیئر بتیستا پیزابالا نے صیہونی آباد کاروں کی طرف سے طیبہ میں ایک چرچ کے قریب آگ لگانے کے واقعہ کی مذمت کی، جب فلسطینی کمیونٹی نے مدد کے لیے اسرائیلی حکام کو فون کیے تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
مقبوضہ بیت المقدس میں چرچ رہنماؤں نے ایک علیحدہ بیان میں مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ان آبادکاروں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے جنہیں اسرائیلی حکام کی طرف سے سہولت اور تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔
چرچ رہنماؤں نے بتایا کہ آبادکاروں نے نہ صرف فلسطینی زمینوں پر مویشی چرائے بلکہ کئی گھروں کو آگ لگا دی اور علاقے میں ایک اشتعال انگیز بورڈ بھی لگایا جس پر لکھا تھا کہ تمہارا یہاں کوئی مستقبل نہیں۔
الجزیرہ کی نامہ نگار ندا ابراہیم نے بتایا کہ چرچ رہنما صیہونی آباد کاروں کے ان حملوں کو منظم اور نشانہ بنا کر کیے گئے حملے قرار دے رہے ہیں۔
غرب اردن میں تقریباً 50 ہزار عیسائی آباد ہیں، جو ایک چھوٹی مگر پرعزم اقلیت ہیں، وہ نہ صرف اپنے مذہب بلکہ اپنی فلسطینی شناخت کی وجہ سے بھی خود کو نشانے پر سمجھتے ہیں۔