اسرائیل فلسطینی بچوں کو جان بوجھ کر گولیوں سے نشانہ بنا رہا ہے: طبی ماہرین

Published On 15 September,2025 09:27 am

غزہ: (دنیا نیوز) غیر ملکی ڈاکٹروں نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے غزہ میں 100 سے زائد ایسے بچوں کا علاج کیا جنہیں سر یا سینے میں گولیاں ماری گئیں۔

ڈچ اخبار فولکس کرانت کے مطابق 17 میں سے 15 ڈاکٹروں نے اخبار کے سامنے گواہی دی کہ انہیں 15 سال سے کم عمر کے بچے ملے جنہیں سر یا سینے میں ایک گولی لگی تھی، مجموعی طور پر انہوں نے 114 ایسے کیسز ریکارڈ کیے، کئی بچے موقع پر جاں بحق ہوگئے جبکہ متعدد شدید معذوری کا شکار ہوئے۔

غزہ میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعات کسی کراس فائر کا نتیجہ نہیں بلکہ واضح ثبوت ہیں کہ اسرائیلی افواج جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

بی بی سی ورلڈ سروس نے اگست میں 160 سے زائد کیسز کی نشاندہی کی تھی جن میں بچوں کو براہِ راست اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، ان میں سے 95 بچے سر یا سینے پر گولیاں لگنے کے باعث ہلاک یا شدید زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر کی عمر 12 برس سے بھی کم تھی۔

فلسطینی سینٹر فار ہیومن رائٹس نے دسمبر میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل دانستہ طور پر بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے، ان پر جسمانی و ذہنی اذیت مسلط کر رہا ہے اور انہیں ایسی حالت میں ڈال رہا ہے جس سے ان کی نسل کو تباہ کیا جا سکے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 20 ہزار بچے اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں، جب کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق روزانہ اوسطاً 28 بچے ہلاک کیے جا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ کم از کم 21 ہزار بچے اس جنگ کے دوران معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔