اسلام آباد: حکومت نے اپوزیشن کے بجٹ پر تمام اعتراضات مسترد کر دیے، معاون خصوصی ہارون اختر کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت سابقہ دور حکومت میں تھی، آج حکومت ڈبل ریونیو چھوڑ کر جا رہی ہے۔
سینٹ میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے معاون خصوصی ہارون اختر نے کہا کہ انڈسٹری، زراعت اور سروسز معیشت کے تین اہم شعبے ہیں۔ ہماری حکومت کی کارکردگی کے سبب تینوں شعبوں کی صورتحال میں بہتری آئی، 2013 میں ہماری حکومت آئی تو گندم کی پیداوار24.21 ملین ٹن تھی اب یہ 25.5 ملین ٹن ہے۔ پہلے چاول کی پیداوار 5.54 ملین ٹن تھی جو اب 7.44 ملین ٹن چھوڑ کر جارہے ہیں۔ شوگر کین کی پیداوار 2013 میں 63.7 ملین ٹن تھی جو اب 83.1 ملین ٹن ہوگئی ہے۔
کنزیومر پرائس انڈکس کی شرح پانچ برس پہلے 8 فیصد تھی جسے ہم نے 3.71 کیا ہے۔ فوڈ انفلیشن پہلے 7.29 فیصد تھا جو ہم نے 2 فیصد کردیا۔ ہارون اختر نے ایوان کو اعدادوشمار سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ترسیلات زر 2013 میں 13 ارب ڈالرز تھیں جو اب 20 ارب ڈالرز ہوگئی ہیں۔ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 3 فیصد سے کم تھی جو اب 3 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔
اپوزیشن کے بجٹ پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ہارون اختر نے کہا کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت سابقہ دور حکومت میں تھی۔ حالات گزشتہ دور حکومت سے کافی بہتر ہیں، آج حکومت ڈبل ریونیو چھوڑ کر جارہی ہے۔ 2013 میں زرمبادلہ کے زخائر 11.8 فیصد تھے جو اب 17 ارب ڈالرز ہیں۔ پاکستان کی فی کس آمدن 2013 میں 1333 ڈالرز تھی جو 2018 میں 1640 ڈالرز ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی امدادی رقم 2013 میں 46.5 ارب روپے تھی جو اب 121 ارب روپے ہوگئی ہے۔ 2013 میں بے روزگاری کا تناسب 6.2 فیصد تھا جو اب 5.9 فیصد ہے۔