کراچی: (دنیا نیوز) دنیا میں جہاں قدرتی گیس کا شمار نعمتوں میں ہوتا ہے وہیں ہمارے ملک میں یہ ایندھن کوڑیوں کے مول بک رہا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ بجلی بچانے والے بلب اور اے سی تو بن گئے لیکن گیس کی بچت کرنے والے چولہے اور گیزر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، گیس کا بے دریغ استعمال اور اس کے ضیاع پر قابو نہ پانے کی سب بڑی وجہ اس کے سستے ترین دام ہیں جن میں منصفانہ اضافہ کرنا اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔
بجلی کا بل آجاتا ہے تو دل بلبلا اٹھتا ہے، بچوں کی فیس کا واچر دیکھ کر کچھ دیر کے لیے سر چکرانے لگتا ہے لیکن اب بھی ہمارے ملک میں ایک ایسی چیز ہے جس کے بل کی فکر نہیں ہوتی وہ قدرتی گیس کا بل ہے۔ قدرتی گیس وزن میں جتنی ہلکی ہے اس کا بل بھی دوسری یوٹیلٹیز کے مقابلے جیب پر اتنا ہی ہلکا پڑتا ہے۔ گیس کا بل کم آنے کی وجہ اس کے سستے ترین نرخ ہیں۔
گھر کے جنریٹر ہوں یا کے الیکٹرک کے پاور پلانٹس، ٹیکسٹائل سیکٹر یا کھاد بنانے والی فیکٹریوں کے جنریٹرز کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ تر مہنگے پٹرول یا فرنس آئل کے بجائے سستی گیس پر ہی چلائے جائیں۔ ہم گھروں میں اضافی روشن بلب کو جھٹ سے بند کردیتے ہیں لیکن کچن میں فالتو روشن چولہوں سے یا بلاوجہ جلتے گیزرز سے بلکل پریشان نہیں ہوتے۔
قدرتی گیس کی ناقدری کی بڑی وجہ اس کے کم ترین ریٹس ہیں۔ گزشتہ 4 سالوں میں اس کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں گیس کی ترسیلی کمپنیوں سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کی پکار بھی سرکار نہیں سن رہی۔ سوئی ناردرن کی جانب سے گیس کے اوسط ریٹس 455 روپے سے بڑھا کر 812 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ سوئی سدرن نے اوسط نرخ 422 سے بڑھا کر 632 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی التجا کی تھی۔ اس عرضی کو دیکھتے ہوئے ریگولیٹری ادارے اوگرا نے حکومت سے سوئی سدرن کے لیے ریٹس میں اوسط 40 فیصد اور سوئی ناردرن کے لیے 60 فیصد تک اضافے کی سفارش کی، لیکن اس کے باوجود ابھی تک حکومت نے اس سفارش پر غور نہیں کیا۔
گیس کے ضیاع کو روکنے کے حوالے سے ترسیلی کمپنیوں کی کوتاہیاں اپنی جگہ لیکن حکومت کی جانب سے گیس کے نرخ نہ بڑھانے کے باعث سوئی سدرن اور ناردرن کو نقصان ہو رہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کمپنیوں کی قیمت خرید ان کی قیمت فروخت سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق سالانہ یہ فرق تقریبا 70 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ کمپنیاں اس فرق کو اپنے کھاتوں میں بھی دکھاتی ہیں لیکن چونکہ یہ سرکاری کمپنیاں ہیں اس لیے سرکار بھی کہتی ہے کہ بعد میں کبھی اسے ادا کردیں گے۔
ان تمام حقائق سے لگتا ہے کہ شاید ہمارے ہاں گیس طلب سے زائد مقدار میں سپلائی ہو رہی ہے لیکن اعدادوشمار اس کے برعکس ہیں۔ ملک میں جہاں گیس کی سپلائی صرف 4 ارب مکعب فٹ یومیہ ہے وہاں اس کی طلب سردیوں میں 8 ارب مکعب فٹ یومیہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے طلب کو پورا کرنے کے لیے 2015 میں ایل این جی درآمد کرنے معاہد کیا گیا۔
گزشتہ مالی سال 2 ارب 40 کروڑ ڈالر کی ایل این جی درآمد کی گئی۔ فی ایم ایم بی ٹی یو درآمدی گیس کی اوسط قیمت لگ بھگ 10 ڈالر ہے جو مقامی گیس کے مقابلے دگنی ہے۔ یہ ایندھن سی این جی اسٹیشنز کے علاوہ پاور پلانٹ میں بھی استعمال ہوتا ہے، جس سے 9 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق گیس کے 80 لاکھ صارفین جن میں بڑا حصہ پاور سیکٹر اور گھریلو شعبے کا ہے انھیں گیس کی قدر کا اندازا اسی وقت ہوگا جب اس کے نرخوں میں منصفانہ اضافہ کیا جائے گا۔ اس اقدام سے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کی مالی حالت بھی بہتر ہوگی۔