سبزیاں کون مہنگی کرتا ہے ؟

Last Updated On 30 January,2019 09:40 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) سبزی منڈیوں میں موجود مخصوص مافیا عام استعمال کے زرعی اجناس کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤمیں ملوث ہے، سٹاک مارکیٹوں کے بڑے بروکرز کی طرح سبزی منڈیوں کا ریموٹ کنٹرول بھی چند بڑے آڑھتیوں کے ہاتھوں میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جو قیمتوں سے چھیڑ چھاڑ میں مصروف رہتے ہیں۔

سرمایہ مارکیٹس کے تجزیہ کاروں کی طرح منڈیوں میں بکنے والی اجناس کے ساتھ بھی سائنسی بنیادوں پر’سٹے بازی‘ کی جاتی ہے، منڈیوں کے یہ ‘‘ماہرین’’ملک میں زرعی اجناس کے زیر کاشت رقبے، مجموعی پیداوار، کھپت اور پیک سیزن کی طلب وغیرہ کے اعدادو شمار مرتب کر کے قیمتیں کم یا زیادہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سیزن میں سبزی یا فروٹ میں کسی نہ کسی آئٹم کی قلت یا بہتات کے نتیجے میں کسان یا عوام کا استحصال کیا جاتا ہے، آلو کی قیمتوں کے موجودہ بحران میں بھی مڈل مین اور آڑھتی اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں، لاہور کی منڈیوں میں اس وقت آلو 6 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، جس میں کسان کی لوڈ نگ، ان لوڈنگ، ٹرانسپورٹ، کمیشن اور بوری سمیت اٹھنے والی لاگت بھی شامل ہے، جس کے نتیجے میں آلو کے کاشتکاروں کا دیوالیہ نکل گیا ہے، تاہم دوسری جانب شہر میں کسی جگہ بھی آلو 20 روپے فی کلو سے کم فروخت نہیں ہو رہا جس کا مطلب ہے کہ آلو کے کاشتکار نے اپنی کئی ماہ کی محنت 5 روپے کلو فروخت کی جبکہ پرچون پر 20 روپے فی کلو کا مطلب ہے کہ درمیان والا 15 روپے منافع مڈل مین لے اڑا۔

اسی طرح پرچون کی سطح پر ٹماٹر 60 روپے، چائنا لہسن 150 روپے، چائنا ادرک 180 روپے، گھیا کدو 60 روپے، شملہ مرچ 80 روپے اورسبز مرچ 70 روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے ،تاہم منڈیوں میں ان کے بھاؤ انتہائی کم ہیں، ذرائع کے مطابق اس سارے عمل میں زرعی مصنوعات کا ڈیٹا مرتب کرنیوالے ادارے ، محکمہ زراعت اور مارکیٹ کمیٹیوں کے اہلکار آڑھتیوں کا ساتھ دیتے ہیں، گزشتہ کچھ عرصے میں اگر منڈیوں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ کبھی آلو کا بحران، کبھی پیاز، ٹماٹر اور لہسن عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتا ہے۔

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسان آڑھتیوں اور مڈل مینوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، ایک سیزن میں جب کسی چیز کی قلت کے بعد قیمتیں زیادہ ہو جائیں تو آئندہ سیزن میں کسان بے تحاشا پیدا کر لیتا ہے جس کے بعد مارکیٹ میں طلب کم ہو کر قیمتیں کریش کر جاتی ہیں اور کسان تباہ ہو جاتا ہے، تاہم اسی صورتحال کا فائدہ منڈیوں میں بیٹھے ہوئے بڑے بروکرز اٹھاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق لاہور کی بڑی منڈیوں میں علی الصبح ہونیوالی بولیوں میں ضلعی انتظامیہ اور پرائس ڈیپارٹمنٹ کے عملے کی نگرانی بھی ضروری ہے ، تاہم سرکاری اہلکار منڈیوں میں بولیوں کے عمل کی مانیٹرنگ گوارا نہیں کرتے۔