کراچی: (طارق غوری) ملک بھر میں گزشتہ 23 سالوں کے دوران ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 148 روپے 25 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی بے قدری کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے، 12 اکتوبر 1999 میں جب پرویز مشرف نے اقدار سنبھالا تو ڈالر 51 روپے 75 پیسے پر ٹریڈ کررہا تھا جبکہ 15 نومبر 2007ء کو جب مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو روپیہ 15 فیصد یعنی 9 روپے 43 پیسے کمی کے بعد 61 روپے 18 پیسے پر ٹریڈ کررہا تھا۔
پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی 24 مارچ 2008 کو اقتدار میں آئی تو ڈالر 62 روپے 22 پیسے پر تھا۔ جبکہ 24 مارچ 2013 میں ڈالر کی قیمت 98 روپے 22 پیسے تک پہنچ چکی تھی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے دور میں روپے قدر میں 37 فیصد یعنی 36 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ ن لیگ کی حکومت میں بھی تھم نہ سکا، ن لیگ نے 5 جون 2013 کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالی تو اُس وقت ڈالر کی قیمت 98 روپے 51 پیسے تھی جو یکم جون 2018 تک 115 روپے 61 پیسے تک پہنچ چکی تھی، اس طرح ن لیگ کے دور میں روپے کی قدر 15 فیصد یعنی 17 روپے 10 پیسے کم ہوئی۔
پی ٹی آئی 18 اگست 2018ء کو اقتدار میں آئی تو اس وقت ڈالر 124 روپے 4 پیسے پر ٹریڈ کررہا تھا، عمران خان کے دور میں روپیہ 33 فیصد یعنی 60 روپے 28 پیسے مہنگا ہوا، پی ٹی آئی حکومت کے اختتام پر 10 اپریل 2022 کو ڈالرکی قیمت 184 روپے 68 پیسے تھی۔
شہبازشریف حکومت نے 11 اپریل 2022ء کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالی، اُس وقت ڈالر کی قیمت 182 روپے 92 پیسے تھی مگر صرف 38 روز میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدرمیں ساڑے 8 فیصد یعنی 17 روپے 8 پیسے کی کمی ریکارڈ کی گئی اور اس وقت ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 200 روپے سے اوپر ٹریڈ کررہا ہے۔
23 برس میں روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت میں 148 روپے 25 پیسے کا اضافہ ہوا۔۔ پرویز مشرف کے 8 سالا دور حکومت میں سالانہ بنیاد پر روپے کی قدر میں اوسط ایک روپیہ 17 پیسے کمی ہوئی جبکہ جمہوری دور میں سالانہ بنیاد پر روپے کی قدر 6 روپے 44 پیسے گری۔