اسلام آباد:(دنیا نیوز) وفاقی حکومت کی طرف سے چند روز قبل آئی ایم ایف کی طرف سے دباؤ کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائے جانے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں 7 روپے 91 پیسے فی یونٹ کا بڑا اضافہ کردیا گیا ہے۔
نیشنل الیکٹرک اینڈ پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے مہنگائی کے مارے عوام کو بجلی کا زور دار جھٹکا دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔
نیپرا کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق 2022-23 کے لئے نیشنل اوسط ٹیرف 24 روپے 82 پیسے مقرر کیا گیا ہے، اس سے پہلے نیپرا کا تعین کردہ ٹیرف 16 روپے 91 پیسے تھا جو کہ اب بڑھ کر 24 روپے 82 پیسے ہو گیا۔
نیپرا نے ٹیرف وفاقی حکومت کو بھجوا دیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت اوسط اضافے پر نوٹیفکیشن جاری کرے گی، ٹیرف کا اطلاق وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کے بعد ہوگا۔
نیشنل الیکٹرک اینڈ پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق ٹیرف بڑھانے کی وجہ کیپسٹی لاگت، عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمت میں اضافہ ہے، روپے کی قدر میں کمی ہے۔
خیال رہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئے جس میں عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے فوری طور پر قسط جاری نہ کرنے اور پٹرولیم مصنوعات سمیت بجلی کے نرخوں میں اضافے کا کہا گیا تھا جس کے بعد فوری طور پر حکومت نے 26 مئی کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے تک کا بڑا اضافہ کیا تھا۔
حکومت کا پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے فی لٹر اضافہ کرنے کا اعلان
اس سے قبل وفاقی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے فی لٹر کا بڑا اضافہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ پٹرول ، ڈیزل، مٹی کا تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتیں بالترتیب 179 روپے 86 پیسے، 174 روپے 15 پیسے، 155 روپے 56، 148 روپے 31 پیسے ہو گئی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ مشکل فیصلہ تھا کہ ہم عوام پر مزید بوجھ ڈالیں اور بوجھ ڈالیں تو کتنا ڈالیں، میں پہلے سے کہتا آرہاتھا کہ عوام کے اوپر کچھ نہ کچھ بوجھ ڈالنا ناگزیر ہے کیونکہ حکومت کو نقصان ہو رہا ہے۔ پٹرول،ڈیزل مہنگاہونےسےمہنگائی بہت زیادہ نہیں ہوتی، اس مہینے کے پہلے 15 دنوں میں 55 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، یہ حکومت برداشت نہیں کرسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر 100 یا سوا سو ارب اس مہینے نقصان ہوگا تو ہماری سویلین حکومت چلانے کا تین گنا ہے، ایک طرف پوری حکومت چلانے کا ماہانہ خرچ 42 ارب ہے جبکہ پٹرول اور ڈیزل کی مد میں سبسڈی 120 ارب روپے ہے۔ ایک آدمی پٹرول کے اوپر دوسرے پاکستانیوں کو 40 روپے سبسڈی دے رہا ہے، زیادہ سبسڈی گاڑی والوں کو ملتی ہے اور اس سے زیادہ بڑی گاڑی کو مل رہی ہے اور جتنے پیسے والے ہیں، ان کو بھی سبسڈی دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اوسطاً آمدن والا پاکستانی اپنے سے امیر والے پاکستانی کو سبسڈی دے رہا ہے۔ اس سبسڈی کی وجہ سے یہاں پٹرول اور ڈیزل کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے اور ہمارے بیرونی ذخائر پر دباؤ بھی آرہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بھی کہا وہ اس وقت تک قرض نہیں دے گا جب تک ہم پٹرول اور ڈیزل کی قیمت نہیں بڑھتے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق حکومت نہ صرف نقصان برداشت کرسکتی تھی بلکہ ہر لٹر پر 30 روپے ٹیکس لگتا جس کو لیوی کہتے ہیں اور اس کے بعد پوری قیمت پر 17 روپے ٹیکس لگتا۔ اگر عمران خان اور شوکت ترین کے فارمولے پر جاؤں تو قیمت 268 روپے بنتی ہے اور اس کے اوپر سیلز ٹیکس لگے گا تو 305 روپے لٹر ہو گا جو عمران خان کا فارمولا ہے۔
مفتاح کا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر کوئی اقدام نہیں کریں گے تو ہم غلط روش پر جاسکتے ہیں، حکومت نے غریب کے تحفظ کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا اعلان جلد ہی وزیراعظم قوم سے خطاب میں کریں گے۔ ابھی اتنی بات رکھنے آیا ہوں کہ حکومت نے جمعہ 27 مئی سے پیٹرول، ڈیزل، کیروسین آئل اور لائٹ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 30 روپے اضافہ ہوگا۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ جس کے بعد پیٹرول 179 روپے 86 پیسے، ڈیزل 174 روپے 15 پیسے، کیروسین آئل 155 روپے 56 روپے اور لائٹ ڈیزل 148 روپے 31 پیسے کا ہوجائے گا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ آج بھی یہ 30 روپے بڑھانے کے بعد حکومت ڈیزل پر 56 روپے نقصان کر رہی ہے، 37 روپے 84 پیسے لائٹ ڈیزل، کیروسین 21 روپے 83 پیسے اور پٹرول پر 17 روپے 2 پیسے نقصان کر رہی ہے۔ آج رات سے ان قیمتوں کا اطلاق ہوگا اور ہم سمجھتے ہیں اس اقدام سے مارکیٹ میں استحکام آئے گا اور مارکیٹ دیکھے گی حکومت نے مثبت قدم لیا ہے اور ایک سال دو مہینے کے عرصے میں معشیت بہتر کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس سے روپے کو استحکام ملے گا، سٹاک مارکیٹ بھی آگے بڑھے گی اور سب سے اہم معیشت میں توازن برقرار رہے گا۔
مہنگائی بڑھنے کے خدشے سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے پڑول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے لیکن ہمارا پاس دوسرا کیا موقع تھا۔اگر ہم پٹرول اور ڈیزل مہنگا نہیں کر رہے تھے تو روز روپے کی قیمت ڈالر کے سامنے نیچے گر رہی تھی، عمران خان چھوڑ کر گئے تھے تو ڈالر 190 روپے 189 روپے ہوگئی تھی اور اب مزید بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے خود پی ٹی آئی کی جانب سے پٹرول کی قیمت بڑھانے پر تنقید کرتا رہا ہوں لیکن اس وقت ہم 30 روپے لیوی اور 17 فیصد ٹیکس کی بات کر رہے تھے جو پی ٹی آئی کی حکومت نے لگایا اور عوام پر بوجھ ڈالا تھا۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ جب عمران خان کا لگا کہ ان کی حکومت جانے لگی، عمران خان کے ذاتی مفاد پر ہر چیز قربان ہوتی ہے اور جب لگا حکومت جانے لگی ہے تو کمی کرکے یہ بارودی سرنگ رکھ گی۔ اس وقت حکومت پاکستان ڈیزل پر 56 روپے اپنے پلے سے دے رہی ہے، ہم نئے ٹیکس یا سیلز ٹیکس لگانے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ جس قیمت میں مل رہا ہے اس سے بھی کم پر دے رہے ہیں۔ ہم سارے ملک کے مالک ہیں اور ہم کیسے متحمل ہوسکتے ہیں کہ جتنا حکومت چلانے میں خرچ نہیں آتا اس سے تین گنا زیادہ پٹرول اور ڈیزل میں سبسڈی دیں۔
بجلی کی قیمتوں سے متعلق سوال پر وزیرخزانہ نے کہا کہ مہنگائی حکومت کی ناکامی سمجھنا چاہیے، ہم قیمتوں پر نظر رکھنے آئے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف اور میری اولین ذمہ داری ہے کہ قیمتوں پر نظر رکھیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں 190 روپے کی سبسڈی دے کر تیل کو 260 روپے میں بیچا ہے، آج چینی 70 روپے میں لے کر آئے ہیں جو عمران خان کے 4 سال میں قیمت اتنی نہیں رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا نے خورنی تیل کی برآمد میں پابندی لگائی تھی تو خورنی تیل کی قیمت دنیا بھر میں 1200 یا 1100 ڈالر سے بڑھ کر ساڑھے 1600 یا 1700 ڈالر اضافہ ہوتا ہے تو اس میں ہمارا قصور نہیں ہے لیکن ہماری ذمہ داری ہے۔ کوشش کریں گے جیسے ڈالر نیچے آتا ہے تو آج شہباز شریف نے جو بڑا فیصلہ کیا جو کسی بھی وزیراعظم کے لیے آسان نہیں ہے اور خاص طور پر اس وقت جب عمران خان پاکستان میں فتنہ پھیلا رہے ہیں اور جتھے لے کر آرہے ہیں، اس سیاسی صورت حال میں شہباز شریف نے جو فیصلہ کیا ہے بڑا مشکل اور سخت فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں اپنی سیاست بچا کر ریاست ڈبو دیں تو یہ فیصلہ ہمارے لیے حکمت یا بہتر فیصلہ نہیں ہے، ہم سب سمجھتے ہیں ہماری سیاست ڈوبتی ہے لیکن ریاست بچتی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس سے ہماری سیاسی مقبولیت میں کمی ہوگی، اس پر بہت تنقید ہوگی لیکن اس وقت ریاست اور ریاست کا مفاد ہمارے لیے مقدم ہے اور اس کو بچانا ہے۔ عبوری حکومت بنے گی لیکن وہ اگست 2023 میں بنے گی جب تک شہباز شریف وزیراعظم ہے، منی بل اور بجٹ یہی قومی اسمبلی منظور کرے گی۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کہا تھا پٹرول کی قیمت بڑھائیں، ہم اس طرح کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں، یہ فیصلہ ریاست کے لیے صحیح ہے اور ہم اس کے پیچھے کھڑے ہیں، ملک کے لیے یہ کرنا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف سے مثبت بات ہوئی ہے، آج جو اقدامات کیے ہیں، اس سے مزید مثبت بات ہوجائے گی، اگلے سال کے لیے آئی ایم ایف اور میرے ہدف میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے اور بہت جلد معاہدہ کریں گے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وفاقی وزیر خزانہ نے لکھا کہ پٹرول کی نئی قیمت 179 روپے 86 پیسے فی لٹر ، ڈیزل کی فی لٹر قیمت 174 روپے 15 پیسے ہو جائے گی۔