علاقائی روابط ، پاک قازق تجارتی تعلقات کیلئے اہم ،جلد پیشرفت متوقع ہے، سفیر یرزن کستافین

Published On 18 July,2023 08:45 pm

اسلام آباد: (انٹرویو: الماس حیدر نقوی ) پاکستان میں قازقستان کے سفیر یرزن کستافین نے کہا ہے کہ کراچی اور گوادر کی پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی سے افریقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منڈیوں تک پہنچنے کیلئے قازقستان کو مختصر ترین راستہ فراہم کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نارتھ ، ساؤتھ انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کوریڈور کیلئے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے، علاقائی تعاون کیلئے افغانستان میں استحکام بہت ضروری ہے، قازقستان گوادر اور کراچی کے قریب پاکستان چین اقتصادی راہدری (سی پیک) روٹ کے ساتھ جائیدادیں خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ قازقستان کی برآمدات کو باقی دنیا کیلئے آسان بنایا جا سکے۔

قازقستان کے سفیر یرزن کستافین نے کہا کہ دنیا جب تک افغانستان میں استحکام نہیں آتا، خطے میں سکیورٹی کی صورتحال تشویشناک رہے گی، پاکستان اور قازقستان کے درمیان فارماسیوٹیکل، ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی، زراعت کی تعمیر کا شعبہ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تجارتی مواقع موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الماتی سے لاہور کی پہلی پرواز میں، قازقستان سے پاکستان پہنچنے والے ٹریول بلاگرز اس ملک کی خوبصورتی، شاندار فطرت، مہمان نواز لوگوں اور تاریخی ورثے سے بے حد متاثر ہوئے، پاکستان اور قازقستان کے ٹرانسپورٹ اور ریجنل کنیکٹیویٹی پر مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، وفد نہ صرف اسلام آباد میں بات چیت کرے گا بلکہ سی پیک روٹ ، کراچی اور گوادر کا دورہ بھی کرے گا۔

قازقستان کے سفیر نے کہا کہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ کر کہ آپ نے ان دونوں بندرگاہوں میں کیا انفراسٹرکچر تیار کیا ہے، جس کے بعد قازقستان کو یقینی طور پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے، کچھ جائیدادیں خریدنا چاہئیں تاکہ قازقستان تجارت کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جاسکے، ازبکستان افغانستان، پشاور سے سی پیک روٹ کا استعمال کرتے ہوئے آسانی سے گوادر تک پہنچ سکتے ہیں، توقع ہے کہ اگلے سال اس حوالے سے اہم پیش رفت متوقع ہے۔

"دنیا نیوز" کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں قازقستان کے سفیر یرزن کستافین نے کہا ہے کہ آپ کے پاس وہ ہے جو ہمیں چاہیے، ہمارے پاس وہ ہے جو آپ کی ضرورت ہے، سب سے بڑے لینڈ لاکڈ ملک ہونے کے ناطے ہمیں گرم پانیوں تک رسائی کی ضرورت ہے، پاکستانی سمندری بندرگاہوں، کراچی اور گوادر کے ذریعے افریقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔

قازق سفیر نے پیشکش کی کہ قازقستان پاکستانی تاجروں کیلئے علاقائی مرکز کے طور پر کام کر سکتا ہے کیونکہ قازقستان یوریشین اکنامک یونین (EEU) کا بانی رکن ہے، جس میں روس، قازقستان،بیلاروس اور آرمینیہ شامل ہیں، جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی کمپنیاں قازقستان میں اپنے دفاتر اور مینوفیکچرنگ سہولیات قائم کر سکتی ہیں اور وہ اپنی مصنوعات پورے خطے میں فروخت کر سکتے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ قازقستان کی زمین صدیوں سے مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی رہی ہے، جغرافیائی طور پر قازقستان پرکشش ہے، پچھلی تین دہائیوں میں اس نے 400 بلین ڈالر سے زیادہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو اپنی طرف متوجہ کیا، جو وسطی ایشیائی ریاستوں CARs میں ہونیوالی کل سرمایہ کاری کا 70 فیصد ہے، قازق صدر نے متعدد بار اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی ٹرانزٹ اور برآمدی صلاحیت کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

یرزن کستافین نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں شمال جنوب، بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کوریڈور کے قیام میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے، قازقستان تیل، گیس، یورینیم اور کوئلے جیسے توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے اور پاکستان کو توانائی کے مختلف قسم کے وسائل کی اشد ضرورت ہے، ہم اپنے ملک کے پاس جو کچھ ہے اسے پاکستان کے ساتھ شیئرکرنے کے لیے تیار ہیں، انہوں نے انکشاف کیا کہ اگلے سال متعلقہ حکام توانائی کے شعبے میں تعاون کے امکانات پر بات چیت کریں گے، انہوں نے دو مسائل پر روشنی ڈالی جو دو طرفہ تعلقات کی ترقی میں رکاوٹ ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ رابطوں اور معلومات کی کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ موجود امکانات کو استعمال کیا جا سکے، مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم صحیح راستے پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اب براہ راست پروازیں ہیں، 8 جولائی 2023 کو الماتی سے لاہور سے پہلی پرواز اب ہم ایک دوسرے سے صرف ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر ہیں، ماضی میں پیش آنے والے کچھ واقعات کی وجہ سے باہمی روابط منقطع ہوئے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم دوبارہ جڑیں اور دو طرفہ تعلقات کی جدید تاریخ میں ایک نیا باب شروع کریں، براہ راست پروازوں کے ذریعے، دونوں ممالک کے لوگ کے میل ملاپ کو فروغ دینے کے لیے نئی راہیں تلاش کر سکیں گے، الماتی سے لاہور کی پہلی پرواز میں، قازقستان سے پاکستان پہنچنے والے ٹریول بلاگرز اس ملک کی خوبصورتی، شاندار فطرت، مہمان نواز لوگوں اور تاریخی ورثے سے بے حد متاثر ہوئے۔

قازق سفیر نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ واپس آئیں گے، اکتوبر یا دسمبر میں وہ دوبارہ پاکستان آسکتے ہیں، اس کے برعکس، لاہور سے الماتی کی پہلی پرواز میں قازقستان جانے والے 50 پاکستانی کاروباری افراد الماتی اور آستانہ میں کاروباری مواقع تلاش کریں گے، سفیر یرزن کستافین نے کہا کہ دوسرے اہم معاملے میں معلومات کی کمی کی وجہ سے، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، ہمارے معاشرے ہمارے دو طرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنے کیلئے ایک دوسرے کو دستیاب مواقع سے واقف نہیں ہیں، انہوں نے تجارت اور سرمایہ کاری میں مستقبل میں دوطرفہ تعاون کے امید افزا سات شعبوں کی نشاندہی کی۔

یرزن کستافین نے کہا ہے کہ فارماسیوٹیکل، ٹیکسٹائل، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی، زراعت کی تعمیر کا شعبہ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تجارتی مواقع موجود ہیں، حال ہی میں ڈائریکٹر جنرل نیشنل لاجسٹک کمپنی (NLC)، میجر جنرل فرخ شہزاد راؤ نے قازقستان میں ہماری قومی اور نجی کمپنیوں کے ساتھ تعمیری بات چیت کی، جس کا مرکزی خیال تعاون کو فروغ دینے اور کنیکٹیویٹی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کاروباری مواقع تلاش کرنا تھا، قازقستان کے نائب وزیر اعظم کے ساتھ ڈی جی، این ایل سی کی ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ قازقستان پاکستان کو 400 ملین ڈالر کی 80 سے زائد مصنوعات برآمد کر سکتا ہے، قازق سفیر نے امید ظاہر کی کہ اگلے سال تک ہم آسانی سے ایک ارب کا یہ معیار حاصل کر سکتے ہیں۔

قازق سفیر نے کہا کہ پچھلے سال پاکستان نے قازقستان سے گندم خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، گندم کی فراہمی کیلئے ہمیں کنیکٹیویٹی کی ضرورت ہے، گزشتہ جون میں قازقستان سے کرغرستان سے چین کے سست بارڈر کے ذریعے قراقرم ہائی وے سے ہوتے ہوئے ٹرک پاکستان پہنچے تھے، اسی طرح این ایل سی نے TIR کنونشن کے تحت خیبر پختونخوا سے افغانستان اور ازبکستان کے ذریعے ٹرکوں کی نقل و حرکت ممکن ہوئی، جیسے ہی لاجسٹک مسائل حل ہوئے تو دو طرفہ تجارت کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے قابل ہو جائیں گے، اس وقت ہماری دو طرفہ تجارت 100 سے 200 ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہے جو کہ کچھ بھی نہیں، جب بھی میں کاروباری برادریوں سے ملتا ہوں۔

یرزن کستافین نے کہا ہے کہ میں انہیں کہتا ہوں کہ B ٹو B کا مطلب بزنس ٹو بزنس نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب ہے بلین ٹو بلین اور برادرز ٹو برادرز ہے، میرے لیے تجارت کا حجم بلین بہت ضروری ہے، ہمیں اس سال کے آخر تک ایک ارب کو عبور کرنا ہے، سفیر نے انکشاف کیا کہ پاکستان اور قازاقستان کے ٹرانسپورٹ اور ریجنل کنیکٹیویٹی پر مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، نہ صرف اسلام آباد میں بات چیت کرے گا بلکہ سی پیک روٹ، کراچی اور گوادر کا دورہ بھی کرے گا، اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ کر کہ آپ نے ان دونوں بندرگاہوں میں کیا انفراسٹرکچر تیار کیا ہے، جس کے بعد قازقستان کو یقینی طور پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے ، کچھ جائیدادیں خریدنا چاہئیں تاکہ قازقستان تجارت کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جاسکے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ازبکستان افغانستان، پشاور سے سی پیک روٹ کا استعمال کرتے ہوئے آسانی سے گوادر تک پہنچ سکتے ہیں، توقع ہے کہ اگلے سال اس حوالے سے اہم پیش رفت متوقع ہے، قازق سفیر کا کہنا تھا کہ علاقائی تعاون کو فروغ دینے میں افغانستان کا کردار انتہائی اہم کردار ہے، پاکستان اور وسطی ایشیا کے درمیان علاقائی ٹرانزٹ ہب بن سکتا ہے، جب تک افغانستان مستحکم نہیں ہوتا، خطے میں سکیورٹی کی صورتحال تشویشناک رہے گی، ہمیں افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال کے بارے میں کچھ خدشات ہیں اور ہمیں ان خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں ہمیں اجتماعی اقدامات پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔

قازق سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے دورہ قازقستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا ہے، پاکستان اور قازقستان نہ صرف دوطرفہ بلکہ کثیرالجہتی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں، یورپ میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے رجحانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ قازقستان نے بین المذاہب اور تہذیبی مکالمے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

یرزن کستافین نے کہا ہے کہ دنیا میں اسلام کے مثبت اور امن پسند تاثر کو فروغ دینا چاہیے اور دنیا کو پیغام دینا چاہیے کہ اسلام کا دہشت گردی، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام امن ، تعاون اور بین المذاہب ہم آہنگی کا مذہب ہے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی تعلقات کے علاوہ، ہمیں اپنے ثقافتی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، اپنی مشترکہ تاریخ، تعلیم، سیاحت، کھیلوں، ایسے بہت سے شعبوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن میں ہمارے گہرے تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔