اسلام آباد: (ذیشان یوسفزئی) سال 2023 بجلی صارفین پر بوجھل بنا رہا، ایک جانب بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے تو دوسری جانب لوڈشیڈنگ کے باعث صارفین کی زندگی عذاب بنی رہی۔
دو ہزار تئیس بجلی کے صارفین کیلئے بھاری ترین سال رہا، بجلی کے نرخوں میں بڑا اضافہ مہنگائی بڑھنے کا سبب بھی بن گیا ، رواں سال بجلی کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچے، ایک سال میں بجلی کی قیمتوں میں 47 روپے کا مجموعی اضافہ ہوا، بھاری بلوں کے باوجود بجلی کا بڑا شارٹ فال اور 18 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی رہی۔
اعداد وشمار کے مطابق فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں 7 بار اضافہ اور 2 بار کمی کی گئی جبکہ سہ ماہی ایڈجسمنٹ کی مد میں تین مرتبہ اضافہ ہوا۔
رواں سال بجلی بلوں پر چار مرتبہ مختلف سرچارجز عائد کئے گئے، سر چارجز کی مد میں بجلی مجموعی طور پر 22 روپے 18 پیسے فی یونٹ مہنگی ہوئی۔
گردشی قرضے کے خاتمے کیلئے آئی ایم ایف کی شرط پر بجلی کی بنیادی قیمت میں 7 روپے 50 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا، وفاقی حکومت کی درخواست پر بجلی کی کم از کم قیمت 25 روپے اور زیادہ سے زیادہ 43 روپے فی یونٹ تک مقرر کی گئی۔
رواں سال بجلی کے رعایتی پیکجز بھی ختم کئے گئے، حکومت نے کسانوں کو دی جانے والی 3 روپے 60 پیسے فی یونٹ سبسڈی فروری میں واپس لے لی، درآمدی صنعتوں کیلئے 19 روپے 99 پیسے کا رعایتی پیکج بھی فروری میں ختم کیا چکا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر ملک بھر میں صارفین بلبلا اٹھے، جن کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں تو موسم گرما میں کیا ہوگا۔
نگران وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ بجلی منصوبوں میں کیپسٹی پیمنٹس کی خطرناک شرائط کی وجہ سے بجلی مہنگی ہوئی، حکومت کو متبادل توانائی کی جانب جانا ہوگا۔
پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 26 سو ارب روپے تک پہنچ چکا، بجلی گھروں کی تعمیر پر لیا گیا قرض بھی عوام سود سمیت واپس کر رہے ہیں، صارفین پر مزید بوجھ ڈالنے کا سلسلہ بھی تھمتا نظر نہیں آ رہا۔