لاہور: (دنیا نیوز) ملک بھر کی تاجر اور صنعتکار برادری نے وفاقی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زراعت سمیت مختلف شعبوں میں سبسڈی نہ دینے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔
صدر کراچی چیمبر آف کامرس جاوید بلوانی نے کہا کہ بجٹ میں صنعتوں کی ترقی اور ایکسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کہا گیا لوگ اپنی بجلی کے کنکشن کروارہے ہیں پچاس فیصد تنخواہیں بجلی اور ٹرانسپورٹ میں خرچ ہورہا ہے مہنگائی کم کرنے کے لیے کیا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ زراعت صوبوں کی زمہ داری ہے اب وفاق کے کنٹرول میں تو پہلے بھی نہیں تھا، کپاس کی پیداوار نوے کی دہائی سے بھی کم ہے، توانائی اور ٹیکس کی لاگت، شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو تو ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی۔
جاوید بلوانی نے کہا کہ ایس ای ایف ایس اسکیم کہ وجہ سے کچھ ایکسپورٹ بڑھی ہے اس کو بھی اب خراب کیا جارہا ہے جب ایکسپورٹ بڑھتی ہے حکومت کوئی نہ کوئی اقدام کرکے ایکسپورٹ گراتی ہے، کراچی کے مسائل کو وفاقی بجٹ میں نظر انداز کیا گیا، کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے رکھے گئے جو ناکافی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 17 ہزار 573 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش، تنخواہوں میں10، پنشن میں7 فیصد اضافہ
کراچی چیمبر کے صدر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آئند ہے اس کے ثمرات عوام تک کیسے منتقل ہوں گے۔
کراچی چیمبر آف کامرس میں وفاقی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے زبیر موتی والا نے کہا کہ بجٹ کیموفلاج ہے جب گزشتہ سال کے معاشی ترقی اور شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے، زراعت نے پست کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر آئندہ مالی سال کے بلند اہداف کی بنیاد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے ایف بی آر کو مزید سختی کرنے کا اختیار دے دیا گیا یہ نہیں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کا ہدف کیوں پورا نہ ہوسکا، بجٹ میں وفاقی حکومت کوئی معاشی منصوبہ نہیں دے سکی کہ کس طرح معاشی نمو بڑھے گی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ صنعتیں نہ لگیں تو بڑھتی ابادی کو کیسے روزگا دیا جائے گا، بجلی مہنگی کرکے ایکسپورٹ نہیں بڑھائی جاسکتی ۔ بجٹ دستاویزات میں معاشی اہداف حاصل کرنے کے اقدامات کا ذکر نہیں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے بجٹ 26-2025ء کی منظوری دے دی
سابق بیوروکریٹ محمد یونس ڈھاگا نے کہا کہ بجٹ توقعات کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے محصولات میں ایک ہزار ارب روپے کی کمی آئی 3.6 فیصد جی ڈی پی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو 4 فیصد سے زائد کیسے ہوگا، نمو کے ہدف کے لیے کوئی صنعتی پلان نہیں زراعت اور آئی ٹی کی ترقی کا بھی پلان نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس اہداف اور جی ڈی پی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا رئیل اسٹیٹ سے ٹرانزیکشن ٹیکس میں کمی کی گئی تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا بجٹ میں ایکسپورٹ کو ریلیف نہیں دیا گیا۔
لاہور چیمبر کے صدر ابو ذر شاد نے بجٹ میں دفاع کے شعبے کیلیے مختص رقم میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا اور ضم اضلاع پر جو 10 فیصد ٹیکس لگایا ہے اس سے ملک کی بزنس کمیونٹی کے تحفظات دور ہوئے ہیں۔
صدر لاہور چیمبر نے کہا کہ حکومت نے ایک کامرس کو ٹیکس نیٹ میں لا کر بہترین کام کیا ہے، پانی کے منصوبوں کے لئے جو بجٹ رکھا گیا ہے اسکو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جتنی جلدی پانی کے منصوبے مکمل ہوں گے ،اس سے ملکی کو فائدہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ: حکومت کا ٹیکسٹائل خام مال پر ڈیوٹی صفر کرنے کا اعلان
اُن کا کہنا تھا کہ سپر ٹیکس میں کمی ہوئی ہے ،ہمیں اس پر حکومت سے زیادہ امیدیں تھیں، ٹیکس کسٹم ڈیوٹی کم ہو رہی ہے، کاٹن انڈسٹری کے لئے بھی حکومت کو ریلیف دینا چاہیے تھا۔
ابو ذر شاد نے کہا کہ جب تک بجٹ کی تفصیلات نہیں ملیں گی ابھی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، بیوکریسی اچھے خاصے کاروبار کو تباہی سے دو چار کر دیتی، وہی کاروبار پرائیوٹ سیکٹر میں بڑھتا ہے، رئیل اسٹیٹ میں کم کرنے سے عوام کو فائد ہ ہو گا ، لاگ بروقت رجسٹریاں کروائیں گے۔
تاجر رہنما میاں انجم نثار نے کہا کہ جب بجٹ دیا جاتا اس میں ڈائریکشن ہوتی ہے، اس بجٹ میں کوئی ڈائریکشن نظر نہیں آرہی، انڈسٹری اور زراعت کے لئے بھی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ ملک آئی ٹی انڈسٹری کی اسپیڈ بھی کم ہوئی ہے حکومت کی اس پر کوئی توجہ نہیں جبکہ اس انڈسٹری سے ہماری 3.1 ارب کی برآمدات ہیں، آئی ٹی سیکٹر میں انڈیا ،سری لنکا سمیت دیگر ممالک آگے نکل گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کیلئے ریلیف کا فیصلہ، ٹیکس سلیبز میں کمی
میاں انجم نے کہا کہ جو لوگ پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان سے مزید ٹیکس لیا جارہا ہے، ایف بی ٹیکس نیٹ بڑھانے میں ناکام رہا۔ یں نہیں سمجھتا اس پالیسی سے ملک میں انویسٹمنٹ آئے گی۔
سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی بجٹ میں جو چھوٹے تاجروں پر بجٹ میں ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جسے مسترد کرتے ہیں، بجلی اور گیس مہنگی کرنے سے غریب عوام پر بوجھ مزید بڑھے گا۔
بجٹ تقریر کے بعد سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فضل مقیم نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی سے مشاورت کے بعد وفاقی بجٹ پر بیانیہ جاری کرینگے، ان کا کہنا تھا بجٹ کیلئے وفاقی وزیر خزانہ کو تجاویز دی تھیں، ان پر عمل درآمد کا جائزہ لے کر تفصیلی مؤقف جاری کریں گے۔
ان کا کہنا تھا وفاقی بجٹ میں فاٹا پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ ایف بی آر کے قوانین سے انڈسٹری کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں دس وزارتوں کے رائیٹ سائزنگ کی منظوری،40ہزار اسامیاں ختم
اس موقع پر غضنفر بلور کا کہنا تھا کہ 18 فیصد سولر پینل پر ٹیکس لگایا گیا جبکہ پٹرول پر بھی غریب عوام سے ٹیکس لیا جائے گا جو کہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ پہلے سے چھوٹے کارخانہ دار رو رہے ہیں اور ان پر مزید ٹیکس لگایا گیا جس کی وجہ سے ملک سے مزید کارخانے دیگر ممالک کو منتقل ہوجائینگے، انکا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے پختونخوا کے تاجر برادری اس بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں۔
سرحد چیمبر آف.کامرس کے سینئر ممبر جلیل جان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے سنیٹرز اور قامی اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں 400 فیصد اضافہ کردیا انکا کہنا تھا کہ کوڈ بار کے بغیر سامان کے ضبظ کا فارمولا بھی ظلم کی انتہا ہے انکا کہنا تھا کہ صوبے کے چھوٹے اور بڑے کاروباری طبقہ اس وفاقی بجٹ کو یکسر مستردکرتی ہیں اور ایک بار پھر حکومت سے اپیل کرتی ہیں کہ اس بجٹ کو دوبارہ ریوو کیا جائے۔