کراچی: (دنیا نیوز) گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ میکرو اکنامک حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن ملک میں بچت کی کم سطح جیسے بنیادی مسائل برقرار ہیں، پاکستان میں بچت کی شرح جی ڈی پی کا صرف 7.4فیصد ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں یہ شرح 27فیصد ہے۔
یہ بات انہوں نے بینکوں کے لیے کیپٹل مارکیٹوں کے امکانات کے موضوع پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، انہوں نے بینکاری شعبے کی سرگرمیوں کی تکمیل، اور طویل مدتی و پائیدار اقتصادی نمو کو سہارا دینے کے لیے ایسی کیپٹل مارکیٹوں کی اہمیت پر زور دیا جو پوری طرح تشکیل شدہ، گہری اور متنوع ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ میکرو اکنامک حالات بہتر ہوئے ہیں، مہنگائی کم ہو رہی ہے اور نمو بتدریج بحال ہو رہی ہے، لیکن ملک میں بچت کی کم سطح جیسے بنیادی مسائل برقرار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بچت کی شرح جی ڈی پی کا صرف 7.4فیصد ہے، جبکہ جنوبی ایشیا میں یہ شرح 27 فیصد ہے، چنانچہ ملک کو بیرونی قرضوں پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے، جو بیرونی کھاتے پر بار بار دباؤ اور عروج و زوال کے چکر کا باعث بنتا ہے۔
گورنر سٹیٹ بینک نے قومی بچتوں کو متحرک کرکے نفع بخش سرمایہ کاری کی طرف انہیں منتقل کرنے میں بڑی کیپٹل مارکیٹوں کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ پوری طرح تشکیل شدہ، گہری اور متنوع کیپٹل مارکیٹوں کی ضرورت ہے جس کے ساتھ مستحکم بینکاری نظام بھی موجود ہو، تاکہ ملک کی پائیدار اقتصادی ترقی کو سہارا دیا جاسکے۔
گورنر نے سٹیٹ بینک کی حالیہ اصلاحات پر روشنی ڈالی جن کا مقصد ملکی بانڈز کی مارکیٹ میں شمولیت کو بڑھانا ہے، ان اصلاحات میں غیر بینک اداروں کی اسپیشل پرپز پرائمری ڈیلرز کے طور پر شمولیت اور انویسٹر پورٹ فولیو سکیورٹیز اکاؤنٹس کی مائکرو فنانس بینکوں، سنٹرل ڈپازٹری کمپنی اور نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان لمیٹڈ تک توسیع شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات ڈجیٹل بینکاری صارفین کے لیے سرمایہ کاری کے نئے مواقع فراہم کرتی ہیں اور مارکیٹ کی وسیع تر تشکیل کی بنیاد ہیں، انہوں نے سرکاری بانڈ کی مارکیٹ میں پیش رفت کے باوجود 8 کارپوریٹ قرضہ اور ایکویٹی مارکیٹوں کی سست روی پر تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ واجب الادا کارپوریٹ بانڈز جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں جبکہ ثانوی بازار میں ان کی سرگرمیاں محدود ہیں اور غیر مالی شعبوں کی شمولیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے، اسی طرح ایکویٹی مارکیٹ کی رسائی بھی محدود ہے، جہاں سرمایہ کاروں کے اکاؤنٹ اور مارکیٹ کیپٹلائزیشن ہم سر معیشتوں کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضابطہ کاروں، مالی اداروں، سرکاری اداروں اور سرمایہ کاروں کے مابین ہم آہنگ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ مالی خواندگی کو فروغ دیا جا سکے، شمولیت کو بڑھایا جا سکے اور ایک شفاف، جدت پسند مارکیٹ ایکو سسٹم تشکیل دیا جاسکے۔