لاہور: (دنیا میگزین) 1975ء کے ورلڈ کپ سے لے کر 2015ء کے ورلڈ کپ تک کئی کھلاڑیوں نے یادگار اننگز کھیلیں جو کرکٹ کی تاریخ میں درج ہو چکی ہیں۔
آج ہم اپنے قارئین کو ورلڈ کپ کی ان اننگز کے بارے میں بتائیں گے جو ناقابل فراموش ہیں اور وہ سب بلے باز شائقین کرکٹ کو اب تک یاد ہیں۔
ڈیرک مرے (ویسٹ انڈیز)
1975ء کے ورلڈ کپ کا سب سے یادگار میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہوا۔ اس میچ میں پاکستان کے جیتنے کے امکانات 99 فیصد تھے لیکن ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر بلے باز ڈیرک مرے اور فاسٹ باؤلر رابرٹس نے جس طرح شکست کے جبڑے سے فتح چھینی وہ اب تک ناقابل یقین ہے۔ اس زمانے میں 60 اوورز کا میچ ہوتا تھا۔
پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 7 وکٹوں پر 266 رنز بنائے جو کہ اس دور کے لحاظ سے اچھا خاصا سکور تھا۔ ویسٹ انڈیز والے ہمیشہ پاکستان کو مضبوط حریف سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنی ٹیم میں روہن کنہانی کو بھی شامل کر لیا تھا جو ریٹائر ہو چکے تھے لیکن پاکستان باؤلرز نے اتنی عمدہ باؤلنگ کی کہ ویسٹ انڈیز کے چھکے چھوٹ گئے۔ پاکستان کی طرف سے ماجد خان نے 60، مشتاق محمد نے 55 اور وسیم راجہ نے 58 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز نے پہلی چار وکٹیں بہت تھوڑے رنز پر گنوا دیں۔
سرفراز نواز نے چار اور نصیر ملک نے دو وکٹیں اڑائیں جبکہ پرویز میر نے ویون رچرڈز کو 13رنز پرآئوٹ کیا۔ اب کپتان کلائیو لائیڈ پر بھاری ذمہ داری آن پڑی کہ وہ اپنی ٹیم کو شکست سے کیسے بچائیں۔
انہوں نے بڑی ذمہ داری سے بلے بازی کی لیکن وہ بھی 53 رنز بنا کر جاوید میاں داد کے ہاتھوں آئوٹ ہو گئے۔ اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے بائولر جولین نے مزاحمت کی لیکن وہ بھی 18 رنز بنا کر پیولین لوٹ گئے۔
اب کریز پر ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر بلے باز ڈیرک مرے اور فاسٹ بائولر اینڈی رابرٹس رہ گئے۔ ویسٹ انڈیز کے نو کھلاڑی آئوٹ ہو چکے تھے اور انہیں فتح کے لئے 63 رنز درکار تھے جبکہ ایک وکٹ باقی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب کلائیو لائیڈ گرائونڈ چھوڑ کر چلے گئے تھے کیونکہ انہیں اپنی ٹیم کی شکست کا مکمل یقین ہو چکا تھا اس موقع پر ڈیرک مرے نے تاریخی اننگز کھیلی اور اینڈی رابرٹس نے ان کا مکمل ساتھ دیا۔
ڈیرک مرے نے 61 رنز بنائے اور ناٹ آئوٹ رہے۔ یوں ویسٹ انڈیز نے ایک ہارا ہوا میچ جیت لیا۔ کرکٹ کے پنڈت اب تک یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے یہ میچ غلط کپتانی کی وجہ سے ہارا۔ بہرحال ڈیرک مرے نے یادگار اننگز کھیلی۔
ظہیر عباس (1979ء)
1979ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کا ویسٹ انڈیز کے ساتھ سیمی فائنل تھا۔ ویسٹ انڈیز نے پہلے کھیلتے ہوئے 293 رنز بنائے۔ گورڈن گرینج نے 73، ڈیسمنڈ ہینز نے 65 اور رچرڈز نے 42 رنز بنائے۔
پاکستان کی طرف سے کپتان آصف اقبال نے چار کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ پاکستان نے بلے بازی شروع کی تو ابتدا میں ہی صادق محمد دو رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے۔
اس کے بعد ماجد خان اور ظہیر عباس نے زبردست بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ ویسٹ انڈیز کے پاس کرافٹ، گارنر، رابرٹس اور ہولڈنگ جیسے خطرناک بائولرز تھے لیکن ماجد خان اور ظہیر عباس نے اتنی شاندار بلے بازی کی کہ ویسٹ انڈیز کے تیز رفتار بائولرز کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔
انہوں نے دلکش سٹروک پلے کا مظاہرہ کیا اور سکور کو 10 سے 197 تک لے گئے۔ اس موقع پر لگ رہا تھا کہ اب یہ میچ پاکستان کے ہاتھ آ گیا ہے لیکن جونہی ماجد خان اور ظہیر عباس بالترتیب 84 اور 93 رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ میچ کا پانسہ ہی پلٹ گیا۔ ٹیم کے باقی آٹھ کھلاڑی صرف 53 رنز بنا سکے۔ کرافٹ نے تین اور رابرٹس نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ویوین رچرڈز نے تین کھلاڑیوں کو آئوٹ کر دیا۔
عمران خان (1983ء)
1983ء کے ورلڈ کپ میں عمران خان زخمی ہونے کے باعث بائولنگ نہ کرا سکے لیکن انہوں نے کپتانی کے فرائض سرانجام دئیے اور اس کے علاوہ بلے بازی بھی بہت اچھی کی۔
سری لنکا کے خلاف میچ میں انہوں نے سنچری بنائی۔ پاکستان کی پوزیشن خراب تھی لیکن انہوں نے شاہد محبوب کے ساتھ مل کر کمال کی بلے بازی کی۔
یہ میچ لیڈز میں کھیلا گیا۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 7 وکٹوں پر 235 رنز بنائے۔ پاکستان کی طرف سے محسن خان 3، منصور اختر 6، ظہیر عباس 15 اور جاوید میاں داد صرف 7 رنز بنا کر پیولین لوٹ گئے۔
اس موقع پر عمران خان نے میدان سنبھال لیا۔ انہوں نے فاسٹ بائولرز شاہد محبوب کے ساتھ مل کر یادگار اننگز کھیلی۔ انہوں نے صحیح معنوں میں کیپٹن اننگز کھیلی اور 102 رنز بنا کر ناٹ آئوٹ رہے۔
شاہد محبوب نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا اور 77رنز بنائے۔ سری لنکا کی طرف سے ڈی میل نے 5 وکٹیں حاص لکیں۔ سری لنکا نے بلے بازی شروع کی تو پوری ٹیم 224 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی۔ عبدالقادر نے پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ عمران خان کی اننگز ورلڈکپ میچوں کی بہترین اننگز میں شمار ہوتی ہے۔
کپل دیو(1983ء )
1983ء کے ورلڈکپ میچ میں بھارت نے زمبابوے کے خلاف پہلے بلے بازی کرتے ہوئے آٹھ وکٹوں پر 266 رنز بنائے لیکن ان 266 رنز میں کپیل دیو کے 175 رنز شامل تھے۔
کپل دیو کی یہ اننگز بڑی زبردست تھی۔ سنیل گواسکر، سری کانت، امرناتھ، سندیپ پائل اور شرما بالکل معمولی سکور پر آئوٹ ہو چکے تھے اور لگ رہا تھا کہ بھارت شائد 100 رنز بھی نہ بنا پائے گا لیکن پھر بھارتی ٹیم کے کپتان کپل دیو آئے اور انہوں نے آتے ساتھ ہی مار دھاڑ شروع کر دی۔
انہوں نے ناقابل یقین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم کا سکور 266 تک پہنچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ جواب میں زمبابوے کی ٹیم نے بھی مقابلہ کیا اور 235 رنز بنا ڈالے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر کپل دیو 175 رنز نہ بناتے تو بھارت کی اس میچ میں شکست یقینی تھی۔
انضمام الحق (1992ء)
انضمام الحق نے نیوزی لینڈ کی خلاف سیمی فائنل میں جس پامردی سے بلے بازی کی وہ ورلڈ کپ کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ پاکستان اس سے پہلے نیوزی لینڈ کو لیگ میچ میں ہرا چکا تھا لیکن سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے شاندار کھیل پیش کیا۔
ویسے بھی اس ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کے سوا ہر ٹیم کو شکست سے ہمکنار کیا تھا لیکن یہ پاکستان تھا جس نے نیوزی لینڈ کو لیگ میچ میں آٹھ وکٹوں سے شکست دی اور پھر سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔
یہ سیمی فائنل آک لینڈ میں ہوا۔ نیوزی لینڈ نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 262 رنز بنائے۔ کپتان مارٹن کرو اور ردر فورڈ نے اعلیٰ درجے کا کھیل پیش کیا اور بالترتیب 91 اور 50 رنز بنائے۔
انضمام الحق نے تاریخی اننگز کھیلی اور 37 گیندوں پر 60 رنز بنائے۔ جاوید میاں داد نے 57 رنز بنائے۔ وہ انضمام کی رہنمائی کرتے رہے۔ بہرحال پاکستان یہ سیمی فائنل جیت کر فائنل میں پہنچ گیا۔
اروندا ڈی سلوا (1996ء )
1996ء کا ورلڈ کپ سری لنکا کیلئے اس لئے یادگار ہے کہ اس نے یہ کپ جیتا۔ یہ فائنل میچ قذافی سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوا۔ دوسری ٹیم آسٹریلیا تھا۔ 17 مارچ 1996ء کو ہونے والے اس میچ میں سری لنکا نے پہلے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو کھیلنے کی دعوت دی۔
سری لنکا کے بائولرز نے بڑی عمدہ بائولنگ کی اور آسٹریلیا 241 رنز ہی بنا سکا۔ سری لنکا کے کپتان رانا ٹنگا تھے جبکہ آسٹریلوی ٹیم کی کپتانی مارک ٹیلر کر رہے تھے۔
مارک ٹیلر نے 74 اور رکی پونٹنگ نے 45رنز بنائے۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں سری لنکا کے سپنرز نے بہت عمدہ بائولنگ کی۔ سری لنکا کی طرف سے جے سوریا اور کالووورانا بالترتیب 9 اور 6 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے لیکن اس کے بعد گوروسنہا اور اروندا ڈی سلوا نے میدان سنبھال لیا۔
ڈی سلوا نے 107 رنز کی باکمال اننگز کھیلی۔ ان کے علاوہ گوروسنہا اور رانا ٹنگا نے بھی بالترتیب 65 اور 47 رنز بنائے۔ اروندا ڈی سلوا کی اس اننگز کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔
سٹیووا (1999ء)
ویسے تو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کا 1999ء کا سیمی فائنل سب کو یاد ہے اور اسے سب سے بڑا ایک روزہ میچ کہا جاتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ میچ برابر ہو گیا تھا لیکن آسٹریلیا فائنل میں پہنچ گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لیگ میچ میں آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو ہرا دیا تھا۔
اس لیگ میچ میں آسٹریلوی کپتان سٹیووا نے 201 رنز کی شاہکار اننگز کھیلی جس کی بنا پر آسٹریلیا نے یہ میچ جیت لیا۔ اس میچ کے دوران سٹیووا کا ایک کیچ ہرشل گبز نے چھوڑ دیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس پر سٹیووا نے گبز سے کہا تھا کہ تم نے میرا کیچ نہیں گرایا بلکہ ورلڈ کپ گرا دیا ہے۔ بہرحال سٹیووا نے دبائو میں یہ اننگز کھیلی تھی کیونکہ آسٹریلیا کے تین کھلاڑی 70 رنز پر آئوٹ ہو چکے تھے جبکہ جنوبی افریقہ نے سات کھلاڑیوں کے نقصان پر 271 رنز بنائے تھے۔ سٹیووا کی یہ اننگز واقعی ناقابل فراموش ہے۔
عبدالرزاق (1999ء)
آسٹریلیا کے خلاف پاکستان نے 1999ء کے ورلڈکپ میں جو لیگ میچ کھیلا وہ بھی ایک ایسا میچ تھا جو لوگوں کے ذہنوں سے ابھی تک محو نہیں ہوا۔ یہ ایک بڑا سخت میچ تھا جس میں پاکستان نے 10 رنز سے آسٹریلیا کو ہرایا۔ 1999ء کا ورلڈ کپ عبدالرزاق کا پہلا ورلڈکپ تھا اور وہ تیسرے نمبر پر بلے بازی کرنے آئے تھے۔
اس میچ میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 276 رنز بنائے جس میں انضمام الحق نے 81، عبدالرزاق نے 60، محمد یوسف نے 12 گیندوں پر 29 اور معین خان نے 12 گیندوں پر 31 رنز بنائے۔
ان سب نے آسٹریلوی بائولرز کی خوب پٹائی کی جن میں گلین میگرا اور شین وارن بھی شامل تھے۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ جس نے متاثر کن اننگز کھیلی اس نوجوان بلے باز کا نام تھا عبدالرزاق۔
یہ عبدالرزاق کی جارحانہ بلے بازی کا شاخسانہ تھا کہ آسٹریلوی تبصرہ نگار بھی داد دینے پر مجبور ہو گئے۔ مشہور تبصرہ نگار ٹونی گریگ نے کہا کہ ابتدائی تین کھلاڑیوں کے جلد آئوٹ ہونے کے باوجود وہ آسٹریلوی بائولروں کیلئے وبال جان بن گیا ہے۔ عبدالرزاق کی یہ جرات مندانہ اننگز ان کی زندگی کی بہترین اننگز میں سے ایک ہے۔
سچن ٹنڈولکر (ء 2003)
اس ورلڈ کپ میں پاک بھارت میچ بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا کیونکہ پاکستان کو اس میچ کے جیتنے کی بہت ضرورت تھی۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستان ورلڈ کپ کے میچوں میں بھارت کو شکست نہیں دے سکا تھا۔ ویسے تو بعد کے ورلڈ کپ میچوں میں بھی پاکستان بھارت کو زیر نہیں کر سکا اور 2019ء کے ورلڈ کپ میچ میں بھی بھارت جیت گیا۔
بہرحال 2003ء کے ورلڈ کپ میچ میں پاکستان نے 273 رنز بنائے۔ یہ اچھا خاصا سکور تھا اور سعید انور نے دلکش بلے بازی کرتے ہوئے سنچری بنائی تھی لیکن جواب میں بھارت نے پاکستان سے بھی اچھی بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ میچ جیت لیا۔
اس میں سچن ٹنڈولکر کی زبردست بلے بازی کا بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر کی بائولنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور چھ وکٹوں سے فتح اپنے نام کی۔
بھارت کے سہواگ اور گنگولی 21 اور صفر پر آئوٹ ہو چکے تھے لیکن ٹنڈولکر نے 81 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی۔ بعد میں محمد کیف نے 35، ڈریوڈ نے 44 اور یووراج سنگھ نے 50 رنز بنا کر فتح کو آسان بنا دیا۔ سچن ٹنڈولکر کی اس اننگز کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
ایم ایس دھونی (2011ء)
1983ء کے ورلڈ کپ کے بعد بھارت نے 2011ء کا ورلڈ کپ بھی اپنے نام کیا۔ اس ورلڈ کپ میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان فائنل کھیلا گیا۔ اس میچ میں سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 6 وکٹوں پر 277 رنز بنائے جس میں جے وردھنے نے شاندار سنچری بنائی۔
جواب میں بھارت نے چار وکٹیں کھو کر 277 رنز بنا کر یہ فائنل جیت لیا۔ اگرچہ افتتاحی بلے باز وریندر سہواگ صفر اور سچن ٹنڈولکر 18 رنز پر آئوٹ ہو چکے تھے لیکن بعد میں گوتم گھمبیر نے 97 رنز بنا کر ٹیم کو سنبھالا دیا لیکن ایم ایس دھونی نے صحیح معنوں میں ٹیم کو جیت کا راستہ دکھایا۔ انہوں نے 91 رنز بنائے۔
اس وقت ان کی طرف سے ایسی اننگز کھیلنا بہت ضروری تھا کیونکہ بھارت کی پوزیشن اس وقت کچھ اتنی اچھی نہیں تھی۔ دھونی کی یہ اننگز بھی ورلڈکپ میچوں کی بہترین اننگز میں شامل ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔