لاہور: ( روزنامہ دنیا) پژمُردہ چہرے، افسردہ آنکھیں اور بُجھی امیدیں، یہ میچ ایسے ہوا کہ جیسے اب نہیں، بہت پہلے ہی یہ ہو چکا تھا کہیں نم ناک تاریخ کے باسی اوراق پر۔ میچ سے پہلے سرفراز احمد کہہ رہے تھے کہ معجزے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم 5 سو رنز بنا لیں۔ ہو سکتا ہے بنگلہ دیش جلدی آؤٹ ہو جائے اور ہم اب بھی سیمی فائنل میں پہنچ جائیں۔
اس نوعیت کا عالمی ایونٹ اور پہلے دن سے ہی پاکستان کی ساری کیمپین ‘اگر مگر’ اور ‘ہو سکتا ہے ’ پر منحصر ہو کر رہ گئی۔ ویسٹ انڈیز سے ایسی شکست کہ جس کے لئے ‘شرمناک’ بھی ایک محدود لفظ قرار پایا۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق سری لنکا سے میچ بارش کی نذر ہو گیا اور نہ صرف قومی ٹیم بلکہ پوری قوم کے لئے ایک لامتناہی بہانہ سا بن گیا کہ اگر وہ میچ ہو جاتا تو ہم یقیناً سیمی فائنل میں پہنچ جاتے۔
انگلینڈ نمبر ون ٹیم تھی، انگلینڈ سے جیت ایک ایسا ‘اپ سیٹ’ تھا کہ جس نے کہیں نہ کہیں چیمپئن ٹرافی کی یادیں تازہ کر دیں۔ قوم بھی پُرامید ہو گئی اور قومی ٹیم بھی۔ لیکن بھارت سے شکست وہ مرحلہ ثابت ہوا کہ جہاں پاکستان کے تمام چانسز معدوم ہونے لگے۔ ایک بار پھر ایک عالمی ایونٹ میں ‘اگر مگر’ پاکستان کا مقدر ٹھہرا۔ اس کے باوجود ظرف تھا سرفراز احمد کا کہ پھر بھی 5 سو رنز بنانے کا خواب دیکھا اور سوچا کہ بنگلہ دیش کو دو سو سے کم سکور پر آؤٹ کر کے فراٹے بھرتے سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گے۔
سرفراز بجا تھے۔ وہ ایسے خواب دیکھ بھی سکتے تھے ۔ لیکن فخر زمان بھلا ایسا کوئی خواب کیونکر دیکھتے۔ سرفراز کا تو جانا ٹھہر چکا ہے مگر باقی سبھی کے سامنے تو ایک ‘درخشاں مستقبل’ منتظر ہے۔ امام الحق کا تو پورا کیریئر باقی پڑا ہے۔ فخر زمان کو بھی تو ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنا تھی۔ باقی سبھی کے اذہان میں بھی کہیں نہ کہیں ایسی ہی امیدیں کروٹیں لے رہی تھیں۔ ایسے میں کہاں سے بنتے 5 سو رنز اور کیسے ہوتا وہ معجزہ برپا کہ جس کی حسرت میں سرفراز اور ان کی پوری قوم ہفتوں سے بے خواب تھی۔
سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ دھونی کے سٹرائیک ریٹ پر سوال اٹھانے والے اب اس بیٹنگ پرفارمنس کے بارے میں کیا فرمائیں گے جہاں انھیں واقعی یقین تھا کہ 5 سو رنز بن بھی سکتے ہیں اور بنگلہ دیش عین اس مطلوبہ رن ریٹ سے ہار بھی سکتا ہے جو پاکستان کو سیمی فائنل میں رسائی کے لئے چاہئے۔