لاہور: (ویب ڈیسک) سابق ڈائریکٹر اکیڈمیز پی سی بی مدثر نذر کا کہنا ہے کہ کاش بڑے ناموں والے کرکٹرز کو ایک برس پہلے کوچ تعینات کر دیا جاتا تو پاکستان کرکٹ کا بہت فائدہ ہوتا۔تنقید کرنیوالوں کو پی سی بی میں نوکریاں دی جا رہی ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے ری سٹرکچرنگ سے قبل سابق ٹیسٹ کرکٹر مدثر نذر ڈائریکٹر اکیڈمی رہے، اب نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور ندیم خان کی ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس تقرری کے علاوہ بھی کئی ایک تقرریاں کی گئی ہیں۔
سابق ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مجھے خوشی ہے کہ محمد یوسف، یونس خان، فیصل اقبال اور دیگر بڑے نام کوچز بنے ہیں، ان کے نام تو ایک برس پہلے بھی آئے تھے اور اگر اس وقت ان کا تقرر ہو جاتا تو پاکستان کرکٹ کو مزید فائدہ ہوتا لیکن اس وقت بورڈ کی مرضی نہیں تھی اور معاوضے بھی اتنے نہیں تھے کہ کوئی آنے کے لیے آمادہ ہوتا، اب ان کے معاوضے بڑھا دیے گئے ہیں جو کہ اچھی بات ہے۔
مدثر نذر کا کہنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ باہر سے لوگوں کو لانا اور ان سے کام کرانا غلط نہیں ہے کیونکہ میں نے بھی باہر سے آکر کام کیا ہے اور دوسرے ملکوں میں بھی جا کر کام کیا ہے تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ کوالیفائیڈ ہیں اور میرٹ پر پورا اترتے ہیں تو کام کرنا چاہیے، باہر سے آکر ملک کی خدمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر پسند و ناپسند کی بنیاد پر لایا جائے اور نکالا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ زیادتی ہو گی۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ عمل میں یہ رحجان نظر آیا ہے، اس سے جتنی جلد چھٹکارا حاصل کر لیں اتنا بہتر ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر نے کہا کہ میں نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ٹی وی یا کہیں اور بیٹھ کر بولنے والوں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں، یہ سوچ غلط ہے کہ منہ بند کرا دیں تو پھر صرف واہ واہ ہو گی، ایسا نہیں ہو سکتا، 90 کی دہائی سے لیکر اب تک آپ نے کتنے لوگوں کو چپ کرا دیا ہے، اب اگر کچھ کو آپ نے جاب دے دی ہے تو کیا دوسرے نہیں بولیں گے، جنہیں نکالا ہے وہ یا ان کے دوست نہیں بولیں گے، کرکٹ بورڈ چلانا ہے تو درست انداز میں چلائیں یہ نہ کریں کہ اپنی جاب بچانے کے لیے بھرتیاں کرتے جائیں۔
مدثر نذر نے کہا کہ گزشتہ سیزن کے قائد اعظم ٹرافی کی چیمپئن سینٹرل پنجاب کے کوچ اعجاز جونئیر کو نکالنا سب سے حیران کن ہے، کہا جا رہا ہے کہ کھلاڑیوں سے پوچھا ہے اور اس رپورٹ پر نکالا گیا ہے، دنیا میں کونسا ایسا کرکٹر ہے جو اپنے کوچ سے خوش ہوتا ہے، اب اگر پاکستان ٹیم ہار جاتی ہے اور کچھ کرکٹرز مصباح الحق کے خلاف بات کرتے ہیں تو کیا مصباح الحق کو نکال دیا جائے گا۔
سابق ڈائریکٹر اکیڈمیز نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جب نئے لوگ آتے ہیں تو اپنے ساتھ نئے لوگوں کو لاتے ہیں اس لیے اب ردو بدل بھی زیادہ ہوا ہے، نئے لوگ نئے انداز اور جاںنے والوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ کوچ ایجوکیشن کو اہمیت نہ دے کر نظام تباہ کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ابھی بھی تقرریوں میں کوچ ایجوکیشن کو اہمیت نہیں دی گئی، کورسز کو فوقیت نہیں دی گئی، مجھے بڑی امید تھی کہ چیف ایگزیکٹو وسیم خان اپنے دوست ڈیوڈ پارسنز اور گرانٹ بریڈ برن کے ساتھ مل کر کوچ ایجوکیشن پروگرامز کو آگے لیکر چلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔