لاہور: (احد خان) کہتے ہیں کہ کرکٹ میں کوئی ifs اور buts (اگر، مگر) نہیں ہوتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ضرب المثل اصول پاکستان پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ پاکستان ایک ایسی ٹیم ہے جو کسی بھی ٹورنامنٹ میں غیر متوقع طور پر واپسی کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تو کیا پاکستان خود اپنی اس بات کو سچ ثابت کر سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟ اس کا جواب اسیifs اور buts (اگر، مگر) میں ہے جس کے بارے میں ہم نے ابھی بات کی ہے۔
لیکن کرو یا مرو کے مرحلے تک پہنچنے کے کم امکانات پر بات کرنے کے بجائے آئیے چند مشاہدات میں اس کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ ٹیم اچھی کارکردگی دکھانے میں کیوں ناکام رہی۔
بابر کیا سوچ رہا ہے؟
بعض اوقات اپنے اندر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اسے چھپانا ناممکن ہو جاتا ہے، افغانستان کے ہاتھوں میچ میں شکست کھانے کے بعد پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔
بابر اپنے کندھوں پر شکست کا بوجھ اٹھا کر یہ ظاہر نہیں کر سکتا کہ سب ٹھیک ہے، ورلڈ کپ جیسے عظیم معرکے میں لگاتار تین شکستوں نے بظاہر کپتان اور اس کی ٹیم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے کم امکانات اور ان کی قسمت کا انحصار صرف اور صرف "اگر، مگر" پر ہے، آئیے اس حوالے سے کچھ اہم پہلوؤں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بے قابو جہاز
سب سے پہلے، وہ کپتانی جس کے بارے میں ہر کوئی ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے ہی بے تحاشا شور مچا رہا تھا وہ ویسی ثابت نہیں ہوئی، بابر اعظم جو کہ کرکٹ کے جدید دور کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک ہیں، میدان میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو ثابت نہیں کر سکے۔
کھلاڑیوں کی بار بارکاہلی اور سست طبیعت نے فتوحات کو ٹیم سے دور کر دیا ہے، مثال کے طور پر افغانستان کے خلاف حالیہ میچ کے انتہائی مشکل مرحلے میں گیند اسامہ میر کے حوالے کرنے کے بابر اعظم کے فیصلے پر سابق کرکٹرز کی جانب سے کافی تنقید کی گئی۔
شاہین اور حارث کے ہوتے ہوئے انہوں نے سپنر اسامہ میر کا انتخاب کیا اور شاہین کے آنے تک شکست کا خطرہ تقریباً شکست میں بدل چکا تھا۔
دباؤ
گزشتہ تین میچوں میں پاکستان کی شکست کی ایک اور بڑی وجہ نفسیاتی دباؤ بھی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے کرکٹ سٹیڈیمز میں پاکستانی سپورٹرز کی کمی نے پاکستانی ٹیم کو کسی حد تک پریشان کر دیا ہے۔
ایک طرف آپ کے پاس پاکستانی شائقین کا جم غفیر ہے اور دوسری طرف آپ کے پاس ایک جنونی اور نفرت پھیلانے والا ہجوم ہے جو بابر اور ساتھی کھلاڑیوں پر ہوٹنگ کرتا ہے۔
پاکستان کی پے در پے شکستوں پر پاکستانی شائقین بھی کافی غصے میں ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر شائقین کرکٹ کے طنز کے باعث کھلاڑی مزید دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔
90ء کی دہائی میں واپس جانا
وجہ نمبر تین پاکستانی ٹیم کی 90ء کی دہائی کے انداز میں بیٹنگ ہے، یعنی دفاعی انداز، ہماری ٹیم میں سوائے افتخار احمد کے کوئی بھی بلے باز ایسا نہیں ہے جو اچھے سٹرائیک ریٹ کو یقینی بنا سکے، ہمارے بلے باز بہت سے مواقع پر "لوز ڈلیوریز" کو بھی باؤنڈری کے باہر پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔
وہ دوسرے جارح مزاج بلے بازوں کے برعکس تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بس گیندوں کو روکنے میں مصروف رہتے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ اس دفاعی بیٹنگ کے انداز سے نجات حاصل کی جائے اور جدید دور کی کرکٹ کے تقاضوں کے مطابق جارحانہ انداز اختیار کیا جائے۔
بہترین باؤلنگ لائن اپ
اب آتے ہیں "بہترین باؤلنگ لائن اپ" کی طرف، افسوس کی بات ہے کہ ہمارے تیز گیند بازوں کے ساتھ ساتھ سپنرز نے ڈرائیو ایبل لینتھ اور شارٹ پچ گیندیں کی ہیں جنہیں مخالف بلے بازوں نے قدرتی طور پر تہس نہس کر دیا۔
برصغیر میں ایسے ٹریکس پر سپنرز کے لیے پرفارم نہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، ہندوستانی وکٹیں عام طور پر سپنرز کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں لیکن ہمارے سپنرز بے دلی سے باؤلنگ کر رہے ہیں اور وکٹیں لینے یا رنز روکنے کے مواقع ضائع کر رہے ہیں۔
خراب فیلڈنگ
وجہ نمبر پانچ پاکستان کی خراب فیلڈنگ ہے جہاں ہر ایسا موقع ضائع کر دیا جاتا ہے جس کے باعث میچ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں ہو سکتا ہو، آئندہ میچوں میں فیلڈنگ کے شعبے کا تنقیدی جائزہ لینا ہوگا۔
ٹیم کا انتخاب
آخری وجہ ہے من مانی ٹیم کا انتخاب، جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے، حارث رؤف اور امام الحق کی جگہ زمان خان اور محمد حارث کو موقع دینا چاہیے تھا لیکن چونکہ وہ ریزرو کھلاڑیوں میں شامل ہیں اس لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔
تمام سوالوں کا ایک سوال
اب آتے ہیں تمام سوالات کے ایک سوال کی طرف کہ کیا پاکستان کمزوریوں کے مجموعے کے باوجود سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگا؟ ifs اور buts (اگر، مگر) کے علاوہ صرف دعائیں اور امیدیں ہی ہیں جن پر ٹیم کا انحصار ہے۔