لاہور: (دنیا نیوز) میشا شفیع ہراسگی سے متعلق کیس کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے قانون میں نہیں آتا۔ لاہور ہائیکورٹ نے علی ظفر کے خلاف میشا شفیع کی اپیل کا 34 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے میشا شفیع کی اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے سے متعلق اس فیصلے کو عدالتی نظیر قرار دیا گیا ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ججز نے کسی خاص طبقے کے مطالبے یا عوام کے جذبات کے مطابق فیصلے نہیں کرنا ہوتے۔
میشا شفیع جے ایس ایونٹس کی ملازمہ نہیں ثابت ہوئیں، جے ایس ایونٹس نے میشا شفیع سے مخصوص وقت کیلئے معاہدہ کیا تھا۔ تحریری فیصلے کے مطابق ایکٹ میں خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے قانون میں مالک اور ملازم کی مکمل وضاحت کی گئی ہے، ججز کی ذمہ داری قانون بنانا نہیں بلکہ قانون کی تشریح کرنا ہے۔ کام کی جگہ پر خواتین کی ہراسگی کیخلاف قانون کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت تھا۔
ایسے قانون کا نفاذ کا مقصد خواتین کو کام کی جگہ پر بہترین ماحول فراہم کرنا ہے، خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کیا جانا بلا شبہ بڑی رکاوٹوں میں شامل تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میشا شفیع کے وکیل نے دلائل میں تمام کام کرنے والی خواتین کے لفظ پر بہت زور دیا۔ قانون میں کام کرنے والی خواتین کی تعریف نہیں کی گئی۔ خواتین کے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے قانون اطلاق صرف کسی ادارے کے ملازم پر ہوتا ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ خواتین ہراسگی قانون کے نفاذ کے بعد بہت سی خواتین اس سے مستفید ہوئی ہیں اور قانون کے نفاذ کا مقصد پورا ہوا ہے۔ یہ قانون ہر خاتون کیلئے نہیں ہے بلکہ صرف ان کیلئے ہے جو خواتین کام کی جگہ پر ہراساں کی جاتی ہیں۔ علی ظفر نہ توملازم تھا اور نہ ہی مالک، اس لئے خاتون محتسب نے ملزم کیخلاف انکوائری کا حکم نہیں دیا۔