فلم 'پانی پت'، پوسٹر سامنے آتے ہی افغانستان میں شور مچ گیا

Last Updated On 12 November,2019 02:36 pm

لاہور:(صہیب مرغوب) ہالی وڈ اور بالی وڈ اپنی ثقافت کے فروغ اور سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے حکومت کا آلہ کار بنے رہے ہیں۔ تفریح کی آڑ میں وہاں کی فلم انڈسٹری نے دوسرے ممالک کی شخصیات کو مجروح کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ان کی فلم انڈسٹری درجنوں ایٹم بموں سے کہیں خطرناک اور اہم ثابت ہوئی ہے۔ اس میڈیا نے ہی کئی ممالک اور مذاہب کو دہشت گردی سے جوڑ دیا۔

بھارت میں تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی مثال فلم ’’پدماوتی‘‘ ہے۔ اس میں علاء الدین خلجی جیسے خوبرو اور جری جرنیل کو بھیانک روپ میں پیش کر کے ان کی شخصیت کا تمسخر اڑانے کی کوشش کی گئی تھی۔ فلم میں ایک حقیقت تو بہت توڑ مروڑ کر بیا ن کی گئی۔ جب خلجی قلعہ چتوڑ پر حملہ آور ہوتا ہے تو تاریخ کے مطابق اسے دور سے ہی دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب پدما وتی کا شوہر راول رتن سنگھ ایک جنگ لڑ کر واپس آتا ہے، وہ اپنے محل میں داخل ہوتے ہی گر کر مر جاتا ہے۔ انگریزوں کے مطابق وہ مرنے کے لئے ہی محل میں داخل ہوتا ہے۔ اپنے شوہر کی موت کے بعد محل کے ہی ایک کمرے میں اس کی بیوہ ستی ہوجاتی ہے۔ یعنی شوہر کی موت کے بعد ہندوئوں کی روایات کے مطابق جل کر مر جاتی ہے۔ خلجی کو دور سے ہی ستی ہونے والی بیوہ کی راکھ سے اٹھنے والا دھواں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن راجپوتوں کی دھمکیوں کے بعد بھارتی فلم ساز یہ سارے مناظر کاٹ کر حقیقت کو مسخ کر دیتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ راول رتن سنگھ اور اس کی بیوہ علاء الدین خلجی سے لڑتے لڑتے مارے جاتے ہیں۔ مسلمان ایسی فلموں پر عمومی طور پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، جس سے بھارتی فلم انڈسٹری کو من مانی کرنے کے لئے فری ہینڈ مل جاتا ہے۔ اسی لئے ہندو اپنی فلموں میں مسلمانوں کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنے کی ناپاک سازش کرتے رہتے ہیں۔ ایسی فلموں کی روک تھام وقت کا تقاضا ہے۔

دوسرے ممالک ایسی حرکتیں کہاں برداشت کرتے ہیں۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارتی حکومت نے 200 سے زائد مورخین اور دانشوروں کی مدد سے بھارت کی تاریخ نئے سرے سے لکھوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ احمد شاہ ابدالی پر بنائی گئی نئی بھارتی فلم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 14جنوری 1761 کو پانی پت کے مقام پر لڑی جانے والی تیسری جنگ سے متعلق اس فلم میں افغان جرنیل احمد شاہ ابدالی کی شخصیت کو مجروح کیا گیا ہے، حالانکہ اس دور میں مرہٹے دہلی پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے، احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کی سازش کو ناکام بنا دیا تھا۔ مرہٹے اگرچہ ہندو ہی سمجھے جاتے ہیں مگر ان کے ہیرو ہندوئوں کے ہیروز سے مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1761ء میں پورے ہندوستان پر قبضے کا سوچا تھا۔ انہوں نے مغل بادشاہت کے کمزور پڑتے ہی دہلی تک پہنچنے کے لئے اپنی فوج منظم کرنا شروع کر دی تھی۔ یہ حکمت عملی پوری ہو جاتی تو آج بھارت میں گائو ماتا کی حکومت نہ ہوتی۔ مرہٹے اس رہن سہن کا نام و نشان مٹا دیتے جو نریندر مودی اوران کے رفقائے کار نے اپنا رکھا ہے۔

مرہٹوں کی منصوبہ بندی کی خبر حضرت شاہ ولی اللہؒ کو ہو گئی انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو حکم دیا کہ مرہٹوں کی سازش کو ناکام بنایا جائے ورنہ یہ مسلمانوں کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کے کہنے پر ہی افغان رہنما اور موجودہ افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی(جنہیں احمد شاہ درانی بھی کہا جاتا ہے) نے اپنی فوج جمع کی اور مرہٹوں سے جنگ کے لئے پانی پت کے میدان میں پہنچ گئے۔ انہوں نے وہاں مرہٹوں کی فوج کو خاک اور خون میں نہلا دیا۔ وہ اس قدر کمزور پڑ گئے کہ ان میں دہلی پر قبضہ کرنے کا سوچنے کی بھی ہمت باقی نہ رہی۔
بھارت نے اس فلم میں نئی نسل کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مرہٹوں نے احمدشاہ ابدالی کو شکست دے دی تھی، ان کی فوج ہلاک ہو گئی تھی اور وہ شکست کھا گئے تھے، وہ جابر اور حملہ آور تھے۔ افغانی ایسی حرکت کہاں برداشت کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی نہ ہوتے تو آج بھارت اس شکل میں قائم نہ ہوتا۔ احمد شاہ ابدالی کا بنیادی مقصد مرہٹوں کی پیش قدمی کو روکنا تھا جس میں وہ کامیاب رہے۔

فلم کے پوسٹر اور ٹریلر سامنے آتے ہی افغانستان میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ فلم میں سنجے دت افغانستان کے ’’فادر آف دی نیشن‘‘ کے روپ میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ بھارت میں فلم پر ملا جلا ردعمل ہوا ہے مگر پٹھان کہاں اپنے لیڈر کی توہین برداشت کرتے ہیں۔ کئی افغان رہنمائوں نے سوشل میڈیا پر فلم ساز سے وضاحت مانگ لی ہے۔کئی افراد نے افغان حکومت سے اپیل کی ہے کہ فلم میں کسی بھی قسم کی خرابی کی صورت میں بھارتی حکومت سے باضابطہ احتجاج کیا جائے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر بھارتی فلم ساز کو وارننگ دے دی ہے کہ اس میں احمد شاہ ابدالی کے خلاف کچھ نہیںہونا چاہیے۔ وہ افغانستان کے ہیرو ہی نہیں بانی بھی ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ بھارت کے اس نجات دہندہ کو روایات کے عین مطابق ’’حملہ آور‘‘ اور ’’تباہیاں پھیلانے والے جنگجو‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہوگا جو افغانیوں کو کسی صورت میںگوارا نہیں۔ ایک معتدل اکائونٹ ہولڈر نے کہا ہے کہ ’’ہمیں امید ہے کہ یہ فلم تاریخی حقائق پر ہی مبنی ہو گی، اس میں کسی ایک گروپ کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘۔ ایک اور ٹوئٹر اکائونٹ سے یہ آواز بلند ہوئی کہ ’’احمد شاہ ابدالی کا منفی کردار کسی صورت میں ایک افغانی کو بھی گوارا نہیں‘‘۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تنقید کے بعد کئی پوسٹرز واپس لے لئے گئے ہیں۔