پاکستان کے نامور مسیحی گلوکار

Published On 18 July,2021 07:40 pm

لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان کی مسیحی برادری نے ویسے تو ہر شعبے میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں لیکن شوبز کی دنیا میں بھی اپنے فن کی عظمت کا سکہ جمایا ہے۔

شوبز کے کئی شعبے ہیں لیکن گلوکاری ایک ایسا میدان ہے جہاں ہمارے مسیحی گلوکاروں نے اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑے۔ ہم ذیل میں اپنے معزز قارئین کو ان بے مثل گلوکاروں کے بارے میں بہت کچھ بتائیں گے۔

ایس بی جون

1959ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ’’سویرا‘‘۔ اس فلم کے ہدایتکار رفیق رضوی تھے اور موسیقار تھے منظور حسین۔ اس فلم کے گیت فیاض ہاشمی اور ناظم پانی پتی نے لکھے تھے۔ سارے گیت ہی اچھے تھے جنہیں ناہید نیازی اور سلیم شہزاد نے گایا۔ ایک گیت مسیحی گلوکار ایس بی جون نے گایا جو ان کا پہلا فلمی گیت تھا۔ یہ گیت اتنا مقبول ہوا کہ اس فلم کی شناخت بن گیا۔ ایس بی جون کو بھی اس گیت سے بہت شہرت ملی۔ یہ گیت آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ فیاض ہاشمی کے لکھے گئے اس گیت کے بول تھے ’’تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے‘ یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے‘‘ ایس بی جون نے اس گیت کو جتنی خوبصورتی سے گایا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ گیت بھارت میں بھی بہت مقبول ہوا۔ اس فلم میں ایس بی جون نے ایک اور گیت بھی گایا تھا جو کچھ یوں تھا ’’میری ملاقات ہوئی‘ پیا جی کے ساتھ ہوئی‘‘ ناظم پانی پتی کا لکھا ہوا یہ نغمہ بھی معیاری تھا لیکن جس عمدگی سے ایس بی جون نے یہ گیت گایا ’’توجو نہیں ہے‘‘ اس کا کوئی جواب نہیں۔

سنی بنجمین جون (ایس بی جون) اکتوبر 1934 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ برنی روڈ کے قریب کمیان سنگیت وڈیالا میں پنڈت رام چندر ترویدی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ دراصل وہ وہاں طبلہ سیکھنے گئے تھے لیکن ان کے گورو نے انہیں کہا کہ وہ گائیکی سیکھیں۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کے گورو بھارت چلے گئے۔ ایس بی جون نے 1950 ء میں گائیکی کو پیشے کے طور پر اپنایا۔ جب انہوں نے ریڈیو پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔ ایس بی جون کے دادا بھی شوقیہ گلوکار تھے۔ انہوں نے کراچی سٹیج پر بہت عرصہ تک پرفارم کیا لیکن ’’فلم سویرا‘‘ کے گیت نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ایس بی جون نے غزلیں بھی گائیں جن میں احمد فراز کی غزلیں بھی شامل ہیں۔ایس بی جون طلعت محمود‘ ہیمنت کمار اور محمد رفیع کے زبردست مداح تھے۔ وہ مختلف مواقع پر ان گلوکاروں کے گیت گاتے تھے۔ کراچی میں ان کی دوستی احمد رشدی سے ہوئی اور انہوں نے احمد رشدی کا کیرئیر بنانے میں ان کی بڑی مدد کی۔ مہدی حسن سے بھی ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ا یس بی جون نے ابن انشا کی اس غزل کو لافانی بنا دیا جو کچھ یوں تھی ’’ کل چودھویں کی رات تھی‘‘ ان کے بیٹے گلین جون بھی مکمل گلوکار ہیں۔ ایس بی جون کو 2011 ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ 5جون 2021 ء کو کراچی میں 87 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

سلیم رضا

کیا شاندار گلوکار تھے سلیم رضا۔ آج بھی ان کے نغمات سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ انہوں نے 50 ء اور 60ء کی دہائی میں اپنی خوبصورت گائیکی سے اہل موسیقی کو حیران کر دیا۔ سلیم رضا نے طربیہ اور المیہ دونوں قسم کے گیت گائے۔ اردو گیتوں کے علاوہ انہوں نے پنجابی گیت گا کر اپنی شہرت میں اضافہ کیا۔ ویسے تو ان کے شاہکار گیتوں کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن فلم ’’عذرا ‘‘میں تنویر نقوی کا لکھا ہوا یہ گیت ’’جان بہاراں رشک چمن‘‘ گا کر وہ امر ہو گئے۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی نے اس گیت کو وہ چاشنی دی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے ایسے نغمات گائے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

سلیم رضا کا اصل نام نوئیل ڈیاس تھا۔ وہ 4مارچ 1932ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پلے بیک گائیکی کے علاوہ انہوں نے غزلیں بھی بڑی عمدہ گائیں۔ سلیم رضا نے اپنا کیرئیر لاہور سے شروع کیا۔ا نہیں المیہ گیت گانے پر زیادہ شہرت ملی۔ سلیم رضا کا خاندان تقسیم ہند کے بعد پاکستان آ گیا۔ا نہوں نے پہلے ریڈیو پاکستان لاہور کیلئے گایا۔ انہوں نے اس دور کے موسیقاروں ماسٹر صادق علی اور استاد عاشق حسین سے موسیقی کے اسرارو رموز سیکھے۔ فلمی صنعت میں انہیں باباجی اے چشتی نے متعارف کرایا۔ سید عطا اللہ شاہ ہاشمی کی فلم ’’نوکر‘‘ (1985ء) سے انہیں پہچان ملی جب ان کا یہ گیت بہت پسند کیا گیا ’’تقدیر کے مالک دیکھ ذرا کیا ظلم ہے‘‘ یہ وہ گانا تھا جس میں ان کا ساتھ کوثر پروین نے دیا۔ انور کمال پاشا کی فلم ’’قاتل‘‘ کیلئے بھی انہوں نے ایک گیت گایا۔ 1947 ء میں سیف الدین سیف کی فلم ’’سات لاکھ‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں یہ گیت گا کر سلیم رضا شہرت کے آسمان پر پہنچ گئے۔ اس گیت کے بول تھے ’’یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں‘‘۔ اس گیت میں سلیم رضا کا فن واقعی اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔

اسی طرح فلم ’’اک تیرا سہارا‘‘ میں قتیل شفائی کا لکھا ہوا یہ گیت بھی سلیم رضا نے بڑی مہارت سے گایا اور اس گیت نے بھی بڑی شہرت حاصل کی۔ اس کے بول تھے ’’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘‘۔ سلیم رضا کے دیگر شاندار گیتوں کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔ یہ گیت ان کے علاوہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔

سلیم رضا کی آواز سنتوش کمار اور ان کے بھائی درپن کیلئے بہت موزوں خیال کی جاتی تھی۔ 25نومبر 1983 ء کو یہ بے بدل گلوکار کینیڈا میں انتقال کر گیا۔

آئرن پروین

اس مسیحی گلوکارہ نے بھی 60ء کی دہائی میں اپنے فن کی روشنی بکھیری۔ آئرن پروین نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں خوبصورت گیت گائے۔ انہوں نییسرکاری ٹی وی کے لیے بھی کئی نغمات کو اپنی آواز دی۔ اعتماد کی دولت سے مالا مال آئرن پروین نے کبھی اہل موسیقی کو مایوس نہیں کیا۔ آئرن پروین کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ انہوں نے میڈم نورجہاں‘ زبیدہ خانم‘ کوثر پروین‘ ناہید نیازی‘ مالا اور نسیم بیگم کی موجودگی میں اپنے آپ کو منوایا اوریہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ انہیں سب سے پہلے موسیقار حسن لطیف نے دریافت کیا اور فلم ’’نور اسلام‘‘ میں انہیں گائیکی کا موقع دیا۔ منظور اشرف کی موسیقی میں گایا ہوا یہ گیت ’’تمہی ہو محبوب مرے‘ میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘‘ ان کی شناخت بن گیا۔ فلم ’’آئینہ‘‘ کی کامیابی میں اس گیت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ’’ثریا‘‘ میں گایا ہوا ان کا یہ گیت بڑا مقبول ہوا ’’آج میرے منے کی سالگرہ ہے‘‘۔ ان کے کچھ اور گیت ملاحظہ کریں۔

ان کی 31 فلمیں سپرہٹ ہوئیں۔ 1983ء میں وہ برطانیہ شفٹ ہو گئیں اور ابھی تک وہیں مقیم ہیں۔

اے نیر

ان کا پورا نام آرتھر نیر تھا اور انہیں پاکستانی کشور کمار بھی کہا جاتا تھا۔ کچھ برس پہلے انہوںنے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے سنڈے میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کشور کمار کو نقل نہیں کرتے البتہ ان کی آواز ان سے ملتی ہے۔ انہوں نے 70 ء اور 80ء کی دہائی میں بہت شہرت حاصل کی۔ کشور کمار کی طرح وہ بھی یوڈلنگ (Yodeling) کرتے تھے یعنی گانے کی دوران اپنی ٹون (Tone) تبدیل کر لیتے تھے۔ امریکہ میں ان کی ملاقات کشور کمار سے ہوئی تو کشور نے کہا ’’تم کمال کر رہے ہو۔ میں تو طربیہ نغمات میں یوڈلنگ کرتا ہوں اور تم المیہ گیتوں میں بھی کر رہے ہو‘‘۔ اے نیر کے مقبول گیتوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے جن میں کچھ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

اے نیر نے پنجابی گیت بھی گائے۔ انہیں سب سے پہلے ریاض شاہد نے اپنی فلم ’’بہشت‘‘ میں گانے کا موقع دیا تھا۔ انہوں نے روبینہ بدر کے ساتھ جو دو گانا گایا وہ سپرہٹ ہو گیا۔ 2018 ء میں انہیں تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا، انہوں نے کئی نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 2016 ء میں یہ شاندار گلوکار 66 برس کی عمر میں وفات پا گیا۔

تحریر: عبدالحفیظ ظفر
 

Advertisement