کراچی: (دنیا نیوز) معروف ادیبہ فاطمہ ثریا بجیا کو مداحوں سے بچھڑے 7 برس بیت گئے۔
اردو زبان اور ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی ادیبہ فاطمہ ثریا بجیا 1930 کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں، 1948 میں اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آ کر آباد ہوگئیں وہ 10 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں، ان کا پورا گھرانہ ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔
وہ کبھی سکول نہ گئیں اور گھر پر ہی تعلیم مکمل کی، کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی نے انہیں 2007ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری جاری کی۔
1997ء میں ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغۂ حسن کارکردگی اور 2012ء میں صدرِ پاکستان کی طرف سے’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا گیا، ڈرامہ نگاری میں انہیں طرہ امتیاز حاصل تھا، 60ء اور70ء کی دہائی میں ان کے عروج کا دور تھا، اس دوران انہوں نے بابر، تصویر کائنات، سسی پنوں، انارکلی، گھر ایک نگر، آگہی، انا، کرنیں، اور آبگینے جیسے شاہکار ڈرامے تحریر کیے۔
بجیا کے ڈراموں میں معاشرے کو سدھارنے میں مشترکہ خاندانی نظام کے کردار کی اہمیت اور تہذیب و تمدن کا درس جابجا پایا جاتا ہے، اردو زبان اور ادب کا یہ دمکتا ستارہ فاطمہ ثریا بجیا 10 فروری 2016ء کو کراچی میں طویل علالت کے بعد 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں مگر اپنی تحریروں کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔