لاہور: (محمد ارشد لئیق) محمد رفیع نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ’’تم مجھے بھلا نہ پاؤ گے‘‘، انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے مدتیں بیت گئیں لیکن ان کی آواز کی خوشبو آج بھی ہوائوں میں محسوس ہوتی ہے، محمد رفیع برصغیر پاک و ہند کی دنیائے موسیقی کا ایک ایسا نام ہے جو ہمیشہ فلمی اُفق پر جگمگاتا رہے گا۔
وہ آج بھی ہمارے دلوں میں ایسے ہی بسے ہوئے ہیں جیسے کہ وہ ہمارے آس پاس موجود ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج بھی محمد رفیع کے گائے ہوئے گیت عوام میں بے حد مقبول ہیں، محمد رفیع کے ’’ کچھ‘‘ نہیں بلکہ ’’زیادہ تر‘‘ گیت ایسے ہیں جن کا ثانی آج تک سامنے نہیں آ سکا ہے اور نہ ہی آئندہ آنے کی امید ہے۔
محمد رفیع کی آواز میں وہ جادو تھا کہ کسی کا بھی ان کے گیتوں کو سن کر مسحور ہو جانا لازمی ہے، محمد رفیع ہی وہ واحد گلو کار تھے جو شوخ و چنچل، درد بھرے، رومانی، کلاسیکل موسیقی اور مغربی طرز کے گیتوں کو یکساں مہارت کے ساتھ گاتے تھے، جنہیں سن کر ایسا لگتا تھا کہ ان گیتوں کو محمد رفیع کے علاوہ کوئی اور گا ہی نہیں سکتا تھا، مثال کے طور پر ان کا گایا ہوا فلم ’’جنگلی‘‘ کا گیت ’’آئییا یا کروں میں کیا سُکو سُکو‘‘، فلم ’’نیل کمل‘‘ کا گیت ’’بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سُکھی سنسار ملے‘‘، فلم ’’سورج‘‘ کا گیت ’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘، فلم ’’مس انڈیا‘‘ کا گیت ’’بدلا زمانہ دیکھو بدلا زمانہ‘‘، فلم ’’تیسری منزل‘‘ کا گیت ’’ آ جا آ جا میں ہوں پیا تیرا ‘‘ اور فلم ’’کوہ نور‘‘ کا گیت ’’ مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے‘‘ وہ گیت ہیں جن کی نہ تو اب تک کوئی مثال پیدا ہو سکی ہے اور نہ ہی کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ان گیتوں کو کوئی اور گلوکار گا سکتا ہے۔
نئے گلوکاروں کی تو بات کیا کریں، محمد رفیع سے پہلے کے اور ان کے ساتھی گلوکار بھی پکے راگوں کے آگے بے بس ہو جایا کرتے تھے لیکن محمد رفیع ہر مجبوری سے بالاتر تھے اور انہوں نے کسی بھی بندش کے آگے سر نہیں جھکایا اور ساری بندشیں توڑ کر وہ ہمیشہ ہی کامیابی کی بلندیوں پر رہے۔
برصغیر کے عظیم گلوکار محمد رفیع 24 دسمبر 1924ء کو بھارتی پنجاب کی ریاست کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، 1935-36ء میں ان کے والد لاہور منتقل ہوگئے اور بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کی، محمد رفیع کی عمر ابھی 13 سال تھی جب انہیں ایک کنسرٹ میں پہلی بار گیت گانے کا موقع ملا، 1941ء میں محمد رفیع پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی جب انہیں اس دور کے مشہور موسیقار شیام سندر کی موسیقی میں فلم ’’گل بلوچ‘‘ کا گیت ’’سوہنیے نی ہیریے نی‘‘ گانے کا موقع ملا۔
پھر انہیں موسیقار اعظم نوشاد نے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت گانے کی دعوت دی، اس فلم میں انہوں نے ’’میرے سپنوں کی رانی‘‘ اور ’’روہی روہی‘‘ جیسے گیت گائے، اگلے سال انہوں نے ہدایتکار محبوب کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ اور ’’جگنو‘‘کیلئے گیت ریکارڈ کروائے، اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انہوں نے گلوکارہ نورجہاں کیساتھ ڈوئیٹ ریکارڈ کروائے جو سامعین نے بہت پسند کئے، اس فلم کیلئے ان کا گایا ہوا گیت ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ اس دور کا سپر ہٹ گیت تھا۔
ان کی موسیقار نوشاد کے ساتھ بہترین ذہنی ہم آہنگی تھی اور ان کے زیادہ تر گیت نوشاد کی ہی موسیقی سے مزین تھے، اس ضمن میں ان کی فلم ’’بیجو باورہ ‘‘کا گیت ’’او دنیا کے رکھوالے‘‘ قابل ذکر ہے، جس نے راتوں رات انہیں شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا، نوشاد نے رفیع کیلئے 149 گیت کمپوز کیے جن میں سے 81 سولو تھے، او پی نئیر کے ساتھ انہوں نے 197 گیت ریکارڈ کروائے جن میں سے ان کے سولو گیتوں کی تعداد 56 ہے۔
اس کے بعد رفیع نے شنکر جے کشن کے ساتھ کام کیا اور ان کے کمپوز کئے گئے مشہور گیتوں میں ’’تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے‘‘،’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘، اور ’’دل کے جھرو کے میں تجھ کو بٹھا کر‘‘ جیسے سپر ہٹ گیت شامل تھے، یہ وہ گیت ہیں جو آج بھی اسی ذوق و شوق کے ساتھ سنے جاتے ہیں، شنکر جے کشن کے ساتھ محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد 341 ہے جن میں 216 سولو گیت شامل ہیں۔
محمد رفیع کو فلم ’’چودھویں کا چاند ‘‘کے ٹائٹل سانگ پر فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا، اس کے بعد ان کا اگلا ایوارڈ نیشنل ایوارڈ تھا جو انہیں فلم ’’نیل کمل‘‘میں گیت ’’بابل کی دعائیں لیتی جا ‘‘پر ملا۔
محمد رفیع کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ انہوں نے اس دور کے تمام سپر ہٹ اداکاروں کے لیے گیت گائے جن میں جیتندر، رشی کپور، شمی کپور، ششی کپور، دھرمیندر، راجندر کمار، جانی واکر، منوج کمار شامل ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد 28 ہزار کے قریب ہے جن میں ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے گیت بھی شامل ہیں، انہوں نے گیارہ بھارتی زبانوں میں گیت گائے ہیں، انہوں نے سولو گیتوں کے ساتھ ساتھ لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے کے ساتھ ڈوئیٹ گیت بھی ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔
وہ نہ صرف ایک اچھے گلوکار بلکہ ایک رحمدل انسان بھی تھے، کئی مرتبہ انہوں نے ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کی خواہش کے مطابق کم معاوضہ پر اور متعدد بار بلامعاوضہ گیت گائے، یہاں تک کہ کئی گیتوں کیلئے تو انہوں نے سازندوں کا معاوضہ بھی اپنی جیب سے دیا۔
جیسا کہ عام طور پر ہوتا آیا ہے کہ ہر اچھے انسان کے کچھ مخالفین بھی ہوتے ہیں، رفیع صاحب کے بھی کچھ مخالفین پیدا ہو گئے تھے، ان کے خلاف بھی کئی قسم کے پروپیگنڈے کئے گئے لیکن ان کے عروج کے سورج کو غروب نہیں کر سکے اور وہ کامیابی کے افق پر شمس و قمر کی طرح جگمگاتے رہے۔
31 جولائی 1980ء کو زندگی بھر آب و تاب سے چمکنے والا یہ سورج موت کے اندھیرے میں کہیں گم ہوگیا لیکن آج بھی ایسے لگتا ہے جیسا کہ وہ کوئی خواب تھا، رفیع اب بھی زندہ ہیں اور ابھی کہیں سے ان کی آواز فضا میں بکھرے گی اور سب کو اپنے سحر میں باندھ لے گی۔
محمد رفیع کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا، بہت کچھ لکھا جائے گا مگر پھر بھی کہیں کچھ تشنگی رہ جائے گی، اس لیے کہ ان کا فن اس قدر وسیع ہے کہ اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، ناقدین کے مطابق محمد رفیع کسی ایک دور کے گلوکار نہیں بلکہ وہ ہر دور کے گلوکار ہیں، آج اس بات کا قلق ضرور ہے کہ رفیع ہمارے درمیان نہیں مگر اس کی آواز ہمارے ساتھ ضرور ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
عظیم گلوکار کے سدا بہارگیت
٭آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے
٭چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام
٭اے نرگس مستانہ بس اتنی شکایت ہے
٭لاکھوں ہیں نگاہ میں زندگی کی راہ میں
٭بہارو پھول برسائو میرا محبوب آیا ہے
٭چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو
٭تم مجھے یوں بھلا نہ پائو گے
٭تیری دوستی میرا پیار
٭میرے پیار کی آواز پہ چلی آنا
٭یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں
٭مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو، میں پیتا نہیں ہوں
٭پردہ ہے پردہ
٭میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے
٭ہم تم سے جدا ہو کے مر جائیں گے رو رو کے
٭یہ چاند سا روشن چہرا زلفوں کا رنگ سنہرا
٭آجا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے
٭چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے
٭ٹوٹے ہوئے خوابوں نے اتنا تڑپایا ہے
٭ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے
٭خوش رہے تو سدا یہ دعا ہے میری
٭پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا
٭سر جو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے
٭ ہم بھی اگر بچے ہوتے نام ہمارا ہوتا ڈبلو ببلو
٭تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے کہ جہاں مل گیا
٭رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں
٭تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
٭یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں
٭نفر ت کی دنیا کو چھوڑ کے پیار کی دنیا میں خوش رہنا میرے یار
ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں، ان کے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین ملک کے موقر جریدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔