لاہور: (دنیا نیوز) عظیم شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے 51 برس بیت گئے۔
کنگھیاں بنانے والے محمد اختر نے شعر گوئی شروع کی تو مشاعرے لوٹنے لگے، ساغر صدیقی نے فلموں کے لئے گیت بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔
ساغر صدیقی کا اصل نام محمد اختر تھا، وہ انبالہ کے ایک متوسط درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کی ابتدائی زندگی کے حوالے سے معلومات بہت کم ہیں لیکن یہ سب جانتے ہیں کے ساغر نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی، شاعری کے ابتدائی دور میں انہوں نے ناصر حجازی کے تخلص سے لکھا لیکن بعد میں ساغر صدیقی کے نام سے خود کو منوایا۔
ساغر نے 16 سال کی عمر میں باقاعدہ طور پر مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا، وہ جالندھر، لدھیانہ اور گورداسپور میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں حصہ لیتے تھے، ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ اپنے اشعار ترنم کیساتھ پڑھتے تھے۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی جب امرتسر میں ہونے والے ایک بڑے مشاعرے میں انہوں نے حصہ لیا، اس شب انہوں نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ساغر بھی ہجرت کر کے لاہور آگئے، اس وقت تک وہ مشاعروں کے بڑے کامیاب شاعر بن چکے تھے، یہاں فنون لطیفہ سے منسلک لوگوں نے ساغر کے کام کو ہاتھوں ہاتھ لیا، ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا، فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی تو ساغر کے لکھے گیت سپر ہٹ ہوئے۔
غربت اور نشے کی لت نے ساغر کو کہیں کا نہیں چھوڑا لیکن اس دور میں بھی ان کی شاعری کمال کی تھی، ساغر کوا ن کے اپنے دوستوں نے لوٹا اور منشیات کے عوض ان سے فلمی گیت اور غزلیں لکھوائیں اور اپنے نام سے شائع کرائیں۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
19 جولائی 1974ء کی صبح ساغر صدیقی موہنی روڈ پر ایک سکول کی دیوار کے ساتھ فٹ پاتھ پر مردہ پائے گئے تھے، ساغر کی زندگی جتنی گمنام اور خاموش تھی اتنی ہی خاموش موت بھی انہیں نصیب ہوئی۔
ساغر صدیقی کی وفات کے بعد ان کے کل چھ شاعری مجموعے منظر عام پر آئے، درویش شاعر ساغر صدیقی کی آخری آرام گاہ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں ہے۔