لندن: (ویب ڈیسک) ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں شائع ہونے والے ناول نگاروں میں سے لگ بھگ نصف شدید خدشے سے دوچار ہیں کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) ان کے تخلیقی کام کی مکمل طور پر جگہ لے سکتی ہے۔
کیمرج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 258 ناول نگاروں، 32 ادبی ایجنٹوں اور 42 فکشن پبلشنگ کے پیشہ ور افراد سے گمنام سروے کیا گیا، جس نے صنعت کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کی ایک واضح تصویر پیش کی ہے۔
ایک بڑی تعداد یعنی 59 فیصد ناول نگاروں نے بتایا کہ ان کے کام کو لارج لینگوئج ماڈلز (ایل ایل ایمز) کو تربیت دینے کے لیے ان کی اجازت یا ادائیگی کے بغیر استعمال کیا گیا۔
اس غیر مجاز استعمال نے ان کے روزگار پر بھی اثر ڈالا اور ایک تہائی سے زیادہ (39 فیصد) نے کہا کہ جنریٹیو اے آئی کی وجہ سے ان کی آمدنی متاثر ہوئی، خصوصاً اس وجہ سے کہ انہیں وہ اضافی کام نہیں مل رہا جو ناول لکھنے کے ساتھ ان کی آمدنی کو سہارا دیتا تھا۔
مستقبل کے حوالے سے بھی منظرنامہ مایوس کن دکھائی دیتا ہے کیونکہ 85 فیصد افراد کو آئندہ آمدنی میں کمی کا خدشہ ہے جبکہ 51 فیصد واضح طور پر خوف زدہ ہیں کہ اے آئی ان کے کام کی مکمل طور پر جگہ لے سکتی ہے۔
رپورٹ کی مصنفہ ڈاکٹر کلیمنٹائن کولٹ نے کیمبرج کے مائنڈرو سینٹر فار ٹیکنالوجی اینڈ ڈیموکریسی سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے کہا کہ ناول نگاروں میں وسیع پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ایسی جنریٹیو اے آئی، جسے بے شمار فکشن پر تربیت دی گئی ہے، تحریری کام کی قدر کو گھٹا دے گی اور انسانی ناول نگاروں کے مقابل آجائے گی۔
ڈاکٹر کولٹ نے مزید کہا کہ کئی ناول نگار اس بات کو لے کر بھی غیر یقینی ہیں کہ آنے والے برسوں میں پیچیدہ اور طویل تحریروں کا کوئی قاری باقی بھی رہے گا یا نہیں، ناول تخلیقی صنعتوں کا بنیادی حصہ ہیں اور بے شمار فلموں، ٹی وی شو اور ویڈیو گیمز کی بنیاد بھی۔
رپورٹ کے مطابق صنفی ادب (genre fiction) لکھنے والے مصنفین خاص طور پر غیر محفوظ سمجھے جا رہے ہیں اور 66 فیصد شرکا نے رومانس لکھنے والوں کو بہت زیادہ خطرے میں قرار دیا، اس کے بعد تھرلر 61 فیصد اور کرائم 60 فیصد لکھنے والے مصنفین ہیں۔
کچھ شرکا نے ایک خوف ناک مستقبل کا تصور بھی پیش کیا، جہاں انسانوں کے لکھے گئے ناول سستے اے آئی سے تیار شدہ مواد کے سیلاب میں ایک مہنگی لگژری شے بن جائیں گے، ان خدشات کے باوجود برطانوی فکشن کی مجموعی رائے مکمل طور پر اے آئی مخالف نہیں۔
سروے میں شریک 80 فیصد افراد اس کے معاشرتی فوائد کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ ایک تہائی (33 فیصد) ناول نگار فی الحال اے آئی کو ’غیر تخلیقی‘ کاموں جیسے معلومات کی تلاش کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ادبی حلقوں میں ایک بات پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے کہ کاپی رائٹ کے مضبوط نفاذ ہونا چاہئے، باخبر رضامندی ہو اور ان کے کام کے استعمال پر منصفانہ معاوضہ دیا جائے، بڑی ٹیک کمپنیوں کی شفافیت اور حکومتی مدد کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
مائنڈرو سینٹر کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر جینا نیف نے کہا کہ ہماری تخلیقی صنعتیں اے آئی کی دوڑ میں نظرانداز کیے جانے کے قابل نہیں، یہ قومی اثاثے ہیں جن کا دفاع ضروری ہے۔



