لاہور: (اسماء رفیع ) 10واں تین روزہ لاہور لٹریری فیسٹیول گزشتہ روز اختتام پذیر ہوگیا، ادب سے محبت کرنے والوں نے الحمرا آرٹ کونسل میں مختلف سیشنز میں شرکت کی جن میں فکری و علمی مباحثے، کتابوں کی رونمائی اور لائیو میوزک شامل تھے۔
تین روزہ لاہور لٹریری فیسٹیول میں اردو اور انگریزی ادب پر مندوبین کی گفتگو پر 70 سے زائد سیشن ہوئے جبکہ اختتامی روز 25 سے زائد سیشن اور کتابوں کی رونمائی کی محفلیں منعقد ہوئیں جن میں شعریات اقبال، شعری روایت، بے مثال امجد اسلام امجد، انار کلی، جہاں باد کی گلیاں اہم نشستیں تھیں۔
اختتامی روز معروف بیوروکریٹ فواد حسن فواد کی شاعری کی کتاب " کنج قفس " کی تقریب رونمائی شرکاء کی دلچسپی کا باعث رہی، نشسست کی میزبانی ممتاز قانون دان اعتزاز احسن نے کی جبکہ معروف بیوروکریٹ کامران لاشاری اور چوہدری یعقوب سمیت دیگر نے شرکت کی۔
ایک اور سیشن "فوٹوگرافی دی فیکٹ" کے عنوان سے ہوا جس میں معروف بھارتی فوٹوگرافر راگھو رائے اور معروف پاکستانی ماہر تعمیرات نیئر علی دادا نے گفتگو کی ، ماہر تعمیرات نے اپنے سفر میں فوٹو گرافی کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے فوٹوگرافر کا تعارف بھی کرایا ، ان کاکہنا تھا کہ راگھو کا کام اس قدر شاندار ہے کہ ان کی تصاویر کو پینٹنگز کے مساوی سمجھا جاسکتا ہے ، راگھو ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں جنہیں 2019 میں پیرس اکیڈمی نے بہترین فوٹوگرافر کے طور پر منتخب کیا تھا ۔
سیشن میں بھارتی فوٹوگرافر نے فوٹو گرافی کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایماندارانہ صحافت تاریخ میں پہلا مسودہ سمجھا جاتا تھا ، اس لیے کیمرے میں ایک تصویر وقت کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور یہ تاریخ کا پہلا بصری مسودہ تھا، حیرت کا جو احساس ایک تصویر تخلیق کرتی ہے وہ پینٹنگ کے ذریعے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اور سیشن میں معروف ڈرامہ و ناول نگار اصغر ندیم سید کے اردو ناول " جہاں آباد کی گلیاں " کی رونمائی ہوئی ، ناول کے بارے میں ماڈریٹر ناصر عباس نیئر نے کہا کہ جس دور میں یہ ناول ترتیب دیا گیا وہ ضیاء حکومت کا دور تھا ، ناول نگار نے 11 سالہ تاریک دور کی ایک تاریخی کہانی کو افسانوی شکل دی ہے۔
مصنف اصغر ندیم سید نے کہا کہ تقریباً تین دہائیوں تک ڈرامے لکھنے کے بعد سوچا جو ڈرامے کے ذریعے نہیں کہا جا سکتا، اسے ناول میں بیان کیا جائے ، اس ناول کے ذریعے میں نے ضیا ء دور کے ان 11 سالوں میں مجھے اور میری نسل کو درپیش تجربات، درد، دکھ اور اذیت کوبیان کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس ناول میں پاکستان اور انگلینڈ کی بہت سی کہانیاں ہیں اور یہ بتاتا ہے کہ ان دنوں میں یہاں اور وہاں چیزوں کو کس طرح جوڑ دیا گیا تھا۔
ثقافت اور معاشرے کے موضوع پر مبنی ایک اور سیشن میں جاوید ملک اور ندیم فاروق پراچہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ نظریاتی جنگوں میں سیکھنے کی صلاحیتیں کیسے متاثر ہوتی ہیں ، انہوں نے تاریخ کی مثال دیتے ہوئے ناظرین کو بتایا کہ کس طرح سر سید احمد خان ایک روشن خیال، تعلیم یافتہ انسان تھے، جنہوں نے مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے۔
ندیم پراچہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نصاب پر زیادہ کام نہیں ہوا، سکولوں اور کالجوں میں لوک موسیقی اور علاقائی زبانوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ، ان کاکہنا تھا کہ مختلف سیاسی اور سماجی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک قومی نصاب بنانا کافی مشکل کام تھا ۔
فیسٹیول کے اختتامی روز چیئرمین بورڈ آف گورنز لاہور آرٹس کونسل الحمراء قاسم علی شاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا سے دانشوروں، مقررین اور کتابیں پڑھنے والوں کا اس ایونٹ پر آنا خوش آئند قدم ہے، لاہور لٹریچر فیسٹیول لاہور کی پہچان بن چکا ہے، ایسے فیسٹیول کا انعقاد دوسرے شہروں میں بھی ہونا چاہئیے ۔
فیسٹول میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، فیسٹیول کے پہلے اور دوسرے روز موسیقی کی پرفارمنسز شامل نہیں تھیں تاہم آخری روز الحمرا پرفارمنگ آرٹ گیلری کے نوجوانوں نے طبلہ ، بانسری اور ستار بجا کر شائقین کے دل موہ لیے ۔