بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین میں حکام سے طرف سے کہا گیا ہے کہ شہری خوراک کی کمی کے حوالے سے پھیلنے والی جعلی خبروں پر کان نہ دھریں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے سرکاری میڈیا اور حکومت کے مکمل کنٹرول میں کام کرنے والے ٹوئٹر کی طرح کے پلیٹ فارم ویبو پر عوام سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ وہ کھانے پینے کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور خوراک کی کمی کے بارے میں ’جعلی خبروں‘ پر کان نہ دھریں۔
سرکاری میڈیا پر ایڈیٹوریل، رپورٹیں اور تبصرے بھی چھاپے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ عوام اور مغربی میڈیا نے ملک میں فوڈ سکیورٹی اور خوراک کے ضیاع کے بارے میں مہم کو غلط سمجھا ہے۔
یاد رے کہ اس سال کے شروع میں جب کورونا وائرس کی وباء ملک میں اپنے عروج پر تھی تو اس وقت بھی اسی طرح کی رپورٹیں اور پیغامات شائع کیے گئے تھے۔
چینی میڈیا ایک حکومتی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں دی جانے والی وارننگ کی اہمیت کو بھی کم کر کے پیش کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چین کو 2025 تک خوراک کی ترسیل میں 130 ملین ٹن کی کمی ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس کی وجوہات میں دیہات کا تیزی سے شہروں میں تبدیل ہونا، دیہی علاقوں کی تیزی سے بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی اور خوراک کے فی کس استعمال میں اضافہ شامل ہیں۔
رورل ڈویلپمنٹ رپورٹ 2020 چین کے رورل ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف دا چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز اور چائنا سوشل سائنسز پریس کی مشترکہ پیشکش ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2025 کے اختتام تک چین میں تین اہم اناج یعنی گندم، چاول اور مکئی کی مانگ کے مقابلے میں 25 ملین ٹن کی کمی کا خدشہ ہے۔ لیکن 19 اگست کو چین کے رورل ڈولپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے ایک تحقیق کار نے کہا کہ اکثر میڈیا اداروں نے اس رپورٹ کو غلط سمجھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حقیقت ہے کہ سپلائی میں کمی کو برآمدات کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے اس لیے فوڈ سکیورٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چین کو فوڈ کی سکیورٹی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔
شنگھائی میں بزنس کی نجی ویب سائٹ ایکائی کے دو رپورٹروں نے لکھا کہ رورل ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ میں جس کمی کا ذکر کیا گیا ہے وہ چین میں اناج کی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔
لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ برآمدات پر انحصار چین کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ ایک اعشاریہ چار ارب لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لیے برآمدات پر انحصار کرنا غیرحقیقی ہے۔
چین میں انگریزی زبان کے سرکاری خبر رساں ادارے خاص طور پر گلوبل ٹائمز نے فوڈ سکیورٹی کے معاملے پر مغربی میڈیا کے مقابلے کی کوشش کی ہے۔
گلوبل ٹائمز نے 17 اگست کو لکھا کہ کچھ مغربی میڈیا نے غلط رپورٹ کیا ہے کہ جنوبی چین میں شدید سیلاب اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے ملک بھر میں خوراک کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔
لیکن چینی زبان کے مقامی میڈیا نے مغربی میڈیا کے بجائے خوراک کی سکیورٹی سے متعلق بحران کے بارے میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں اور افواہوں پر زیادہ توجہ دی۔
مقامی سرکاری میڈیا نے عالمی سطح پر تبدیل اور کشیدہ ہوتے ہوئے ماحول کے پس منظر میں خوراک کی سکیورٹی کے بارے میں حکومت کے ردعمل کو بھی اجاگر کیا ہے جس کا بظاہر تعلق چین کی امریکہ کے ساتھ جاری کشیدگی سے ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اگست میں چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013 میں شروع کی گئی مہم اپنی پلیٹ صاف کریں کو ایک نئے انداز میں دوبارہ شروع کیا ہے۔ انھوں نے ملک میں خوراک کے ضیاع کو ختم کرنے اور پیسے کی بچت پر زور دیا ہے۔
چینی صدر نے خوراک کی کمی کو پریشان کُن اور تکلیف دہ قرار دیا اور عوامی سطح پر اس مسئلے کے بارے میں آگہی بڑھانے پر زور دیا۔
چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق انھوں نے ایک ایسا سماجی ماحول پیدا کرنے کی بات کی جہاں خوراک کو ضائع کرنا شرمناک سمجھا جائے۔
چینی ٹی وی چینل سی جی ٹی این کے مطابق صدر شی جن پنگ نے کہا کہ حالانکہ چین میں کئی برسوں سے بہترین فصلیں پیدا ہو رہی ہیں لیکن خوراک کی سکیورٹی کے بارے میں باخبر رہنا ضروری ہے۔ اس سال کووڈ 19 کی وبا کے اثرات نے ہمیں اس بارے میں خبردار کر دیا ہے۔
چین کے سرکاری میڈیا نے صدر کے اس بیان کے بعد اس معاملے پر کافی بات کی اور سرکاری اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق 2015 میں بڑے شہروں میں چینی شہریوں نے 17 سے 18 ملین ٹن کھانا ضائع کیا تھا۔