لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جعلی خبریں ہیں، سب سے زیادہ خبریں فیس بک پر پھیل رہی ہیں، امریکی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دو ٹولز جعلی خبروں کیخلاف فائدے مند ہو سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے نئے کورونا وائرس سے جنم لینے والی عالمی وبا کووڈ انیس کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا کی یونیورسٹی آف ٹیکساس نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ فیس بک استعمال کرنے والے صارفین جعلی خبروں پر جلد یقین کر لیتے ہیں۔
امریکی تحقیق کے مطابق اسی لیے جعلی خبروں کے تدارک کے لیے دو ٹولز سامنے آئی ہے جو اس کے خلاف فائدے مند ہو سکتے ہیں۔ پہلا اقدام یہ ہے کہ فیس بک جعلی پوسٹ پر سٹاپ کا اشارہ لگا دے، دوسرا اقدام یہ کہ پوسٹ کے ساتھ مضبوط بیان منسلک کیا جائے جیسا کہ تھرڈ پارٹی فیکٹ چیکر نے پوسٹ کو جعلی قرار دیا ہے۔ اگر یہ دونوں اقدام کو ایک ساتھ اپنایا جائے تو اس کی افادیت دوگنی ہوجاتی ہے۔
امریکی تحقیق کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر اور سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک حالیہ عرصے کے دوران جعلی خبروں کے حوالے سے متحرک ہوئی ہیں اور خبروں کے معاملے پر آگاہی دے رہی ہیں کہ شیئر کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچا ضرور جائے۔ کیونکہ ٹویٹر حالیہ عرصے کے دوران جعلی خبروں سے متعلق انتباہی پیغامات بھی دے رہا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق فیس بک کا کہنا ہے کہ لوگ جعلی خبروں پر فوری طور پر بھروسہ کر کے شیئر کرتے ہیں، ٹویٹر فیس بک کے مقابلے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ جعلی خبروں کے اوپر جھنڈا لگا دیتا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل کورونا وائرس کے حوالے سے جعلی خبروں اور غلط معلومات کے خلاف مہم کے لیے فیس بک کی جانب سے نئے ٹول کو پیش کردیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی صارف وائرس یا اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے حوالے سے کسی غلط معلومات یا جعلی خبر کو لائیک یا کمنٹ کرے گا تو اسے خبردار کیا جائے گا۔
درحقیقت اگر وہ گزشتہ دنوں بھی ایسا کرچکا ہے تو مواد کو ڈیلیٹ کرنے کے ساتھ اس پر کمنٹس، لائیک یا ری ایکشن کرنے والے افراد کو الرٹ کیا جائے گا۔
یہ الرٹ نیوزفیڈ پر نظر آئے گا اور اس میں عالمی ادارہ صحت کے ایسے لنکس دیئے جائیں گے جس میں کووڈ 19 کے حوالے سے توہمات کو مسترد کیا گیا ہے۔ یہ الرٹس صارفین کی نیوزفیڈ پر آنے والے دنوں میں نظرآنا شروع ہوجائیں گے۔
فیس بک ایسا پہلے بھی کرچکا ہے اور کچھ سال قبل اس نے بوگس پیجز کو لائیک یا فالو کرنے والوں کو اسی طرح کے الرٹ بھیجے تھے۔
فیس بک کی جانب سے ویکسین سے متعلق مواد کو سرچ کرنے والے صارفین پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ وہ قابل اعتبار ذرائع جیسے عالمی ادارہ صحت یا دیگر پر جایں۔
فیس بک نے گزشتہ سال مسائل والے مواد کے حوالے سے 3 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا جو ریموو، ریڈیوس اور انفارم پر مشتمل تھا۔
کووڈ 19 کی جعلی خبروں کے حوالے سے یہ سوشل میڈیا ریموو اور ریڈیوس کے نکات پر عمل کرچکا ہے اور اب انفارم کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ فیس بک کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ فیس بک کی جانب سے چھ ماہ کے دوران تین بلین سے زائد جعلی اکاؤنٹس کو بلاک کیے جانے کے حیران کن اعدادوشمار سوشل نیٹ ورک سائٹس کو درپیش ان چیلیجز پر روشنی ڈالتے ہیں جن کا سامنا یہ جعلی اکاؤنٹس کی بندش کے حوالے سے کر رہے ہیں۔