نیو یارک: (ویب ڈیسک) فیس بک نے کورونا وائرس کے بارے میں جعلی تفصیلات کی روک تھام کی پالیسی کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اب ویکسینز کے حوالے سے جعلی دعوے ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے۔
فیس بک کی جانب سے یہ اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب برطانیہ میں فائزر کی کورونا ویکسین کے استعمال کی منظوری دی جاچکی ہے جبکہ امریکا اور دنیا کے دیگر حصوں میں جلد ایسا کیے جانے کا امکان ہے۔
اس سے قبل پالیسی میں بتایا گیا تھا کہ یایسی پوسٹس کو سوشل نیٹ ورک سے ہٹا دیا جائے گا جس میں وائرس کے بارے میں جعلی تفصیلات دی جائیں گی جو نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
فیس بک نے پالیسی کو توسیع دی ہے اور ایسی پوسٹس کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا جن میں ویکسینز کے حوالے سے ایسے دعوے کیے جائیں گے جو تحقیقاتی نتائج کے متضاد ہوں گے۔
فیس بک کی جانب سے ویکسینز کے حوالے سے سازشی خیالات جیسے ویکسینز میں مائیکرو چپس کی موجودگی کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا، ویکسین کے محفوظ ہونے، افادیت، اجزا یا سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں جعلی دعوے کرنے پر بھی صارفین کو کمپنی کے ایکشن کا سامنا کرنا ہوگا۔
فیس بک کا کہنا تھا کہ پالیسی کا اطلاق راتون رات نہیں ہوگا اور کووڈ 19 ویکسینز میں ارتقا کے ساتھ دعوؤں کی فہرست کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ پالیسی کو اختیار کرنے میں تاخیر کے نتیجے میں ویکسین کے حوالے سے پھیلنے والی گمراہ کن رپورٹس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کیسے ممکن ہوسکے گی۔
گزشتہ ماہ فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل نے آن لائن کورونا وائرس کی ویکسینز کے حوالے سے گمراہ کن تفصیلات کے پھیلاؤ کے لیے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس مقصد کے لیے تینوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے نئی شراکت داری کی ہے جسکے تحت محققین اور حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر اینٹی ویکسین تفصیلات پھیلانے کے حوالے سے ردعمل کا فریم ورک تیار کیا جائے گا۔
برطانیہ کے حقائق جانچنے والے ادارے فل فیکٹ نے بیان میں بتایا کہ اس وقت جب کورونا ویکسین ممکنہ طور پر چند ماہ میں متعارف ہوسکتی ہے، اس کے حوالے سے گمراہ کن رپورٹس اور تفصیلات کی لہر ویکسین کے حوالے سے لوگوں کے اعتماد کو ختم کرسکتی ہے، یہ پراجیکٹ ماضی کی کی اس طرح کی مہمات سے سیکھے گئے سبق کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، تاکہ ہم اگلے بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکنے کے قابل ہوجائیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق فیس بک، گوگل اور ٹوئٹر تینوں اس پراجیکٹ کا حصہ ہوں گے جن کے ساتھ امریکا، برطانیہ، بھارت، سپین، ارجنٹائن اور افریقا کے حقائق جانچنے والے ادارے ہوں گے جبکہ برطانیہ کے سرکاری ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا و سپورٹ ڈیپارٹمنٹ اورر کینیڈا کی پرائیوی کونسل آفس بھی اس کا حصہ ہوں گے۔
فل فیکٹ کے مطابق یہ گروپ گمراہ کن تفصیلات کی روک تھام کے لیے اصول مرتب کرے گا اور ایسا مشترکہ فریم ورک تیار کیا جائے گا تاکہ اس کے خلاف کام کیا جاسکے۔