’جعلی خبریں’ نشر کرنے پر چین کی بی بی سی پر کڑی تنقید

Published On 29 July,2021 09:25 pm

بیجنگ: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں نشاطِ ثانیہ کی طرف گامزن ہونے والے ملک چین نے بی بی سی کی جانب سے ملک میں آنے والے سیلاب سے متعلق 'جعلی خبریں' نشر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وسطی چین میں تباہ کن سیلابوں کی کوریج پر ادارہ انتہائی غیرمقبول ہوا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی نے رپورٹ کیا تھا کہ قوم پرستوں کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ترک کیا جانا چاہیے جہاں قوم پرست عناصر غیر ملکی میڈیا، ذرائع ابلاغ پر متعصبانہ رپورٹنگ کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق چین کے وسطی صوبہ ہینن میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے کم از کم 99 افراد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سیلاب کی کوریج کے دوران انکے صحافیوں کو آن لائن ہراساں کیا گیا جبکہ دیگر اداروں کے صحافیوں نے حملوں کی شکایت کی ہے جس سے چین میں غیرملکی صحافیوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

ترجمان چینی وزارت خارجہ ژاؤ لیجیان نے بی بی سی کو  جعلی نیوز براڈکاسٹنگ کمپنی  قررا دیتے ہوئے کہا کہ بی بی سی نے صحافتی معیار میں ابتری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین پر حملے کی کوشش کی۔ بی بی سی اسی رویے کا مستحق ہے کہ وہ چینی عوام میں غیر مقبول ہو اور بلاوجہ نفرت کی بات نہیں ہے۔

منگل کے روز 16 لاکھ فالوورز کی حامل چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کی یوتھ برانچ نے بی بی سی کے رپورٹرز کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے آن لائن تبصرے شائع کیے جس کے بعد لفظوں کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ ہینن کمیونسٹ یوتھ لیگ کے قوم پرستوں کی جانب سے کیے گئے تبصروں میں بی بی سی نمائندوں کو موت کی دھمکیاں دی گئیں۔

اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ہفتے چینی شہر ژینگ ژو میں تین دن میں سال کی سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی تھی اور کم از کم 14 افراد ہلاک اور شہر کے سب وے کے نظام میں سیلابی پانی بھرنے سے 500 سے زائد مسافر پھنس گئے تھے۔

سٹی اور صوبائی عہدیداروں کو احتساب کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ متاثرین میں سے ایک کی اہلیہ نے بتایا کہ سب وے میٹرو انتظامیہ پر غفلت برتنے کا مقدمہ کریں گی۔ لیکن شفافیت کے مطالبے کے باوجود غیرملکی صحافیوں کو چین میں بڑھتے ہوئے متصبانہ رویے کا سامنا ہے کیونکہ چین کی منفی منظر کشی کے حوالے سے حساسیت اب عروج پر پہنچ چکی ہے۔

چین وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ غیر ملکی نمائندے چین میں آزادانہ رپورٹنگ کے ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

البتہ ان کے اس بیان کے برعکس آزاد میڈیا کے لیے آواز اٹھانے والے گروپوں کا کہنا تھا کہ غیرملکی رپورٹرز کے لیے کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جہاں صحافیوں کا گلیوں چوراہوں میں پیچھا کیا جاتا ہے، آن لائن ہراساں کیا جاتا ہے اور ویزا دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔

Advertisement