نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت کی ریاست کرناٹک میں کالج میں انتہا پسند طالب علموں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوجانے والی مسلم لڑکی مسکان کے خلاف بھارت میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جانے لگا اور ان سے متعلق جعلی تصویریں شیئر کی جانے لگیں
واضح رہے کہ کرناٹک میں حکومت نے تعلیمی اداروں میں طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اس پابندی کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے پوری ریاست کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مسکان اس وقت سوشل میڈیا پر مزاحمت کی علامت بن کر ابھری ہیں اور انہیں دنیا بھر سے داد و تحسین موصول ہو رہی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے صارفین کے مطابق مخالفین نے انکی کردار کشی کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کا سہارا لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مخالفت کرنے والوں کی جانب سے دو دنوں سے مختلف تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس کا مقصد لوگوں کو بتانا ہے مسکان صرف تعلیمی ادارے میں حجاب پہنتی ہیں جبکہ کالج سے باہر ان کا حلیہ مختلف ہوتا ہے۔
کریٹ لی ڈاٹ ان نامی اکاؤنٹ کی جانب سے ایسی ہی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی گئی جس میں دو تصاویر کو ساتھ جوڑا گیا۔ ایک تصویر میں خاتون جینز اور شرٹ پہنے ہوئے نظر آرہی ہیں اور دوسری میں مسکان کالج میں احتجاج کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اکاؤنٹ کا دعویٰ ہے کہ مسکان جو دراصل جینز پہنتی ہیں وہ حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے کالج حجاب پہن کر آئیں تھیں۔
लिबरल गैंग के प्रोपेगैंडा की बत्ती जलाओ.. pic.twitter.com/NXHni8zx4z
— Kreately.in (@KreatelyMedia) February 9, 2022
ایسی ہی تصاویر فیس بک پر بھی شیئر کی گئیں اور دعویٰ کیا کہ مسکان دراصل کرناٹک حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں اور انہیں ایسا کرنے کے لیے پیسے بھی مل رہے ہیں۔
یہی تصویر سوشل میڈیا پر سینکڑوں لوگوں کی جانب سے شیئر کی گئی لیکن بھارت کی ہی فیکٹ چیک ویب سائٹ کے مطابق یہ تصاویر دو مختلف لڑکیوں کی ہیں۔ ان میں سے ایک مسکان ہیں اور دوسری کرناٹک کی سیاسی جماعت جنتا دل سیکولر کی رکن نجمہ نظیر کی ہیں۔
فیکٹ چیک ویب سائٹ کے مطابق نجمہ نظیر نے اس بات کی خود تصدیق کی کہ مسکان کے ساتھ جوڑی جانے والی تصویر دراصل ان ہی کی ہے۔ نجمہ نظیر کی جس تصویر کو مسکان سے جوڑا جا رہا ہے وہ انہوں نے خود 13 مئی 2018ء کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر پروفائل پکچر کے طور پر لگائی تھی۔
دوسری جانب کرناٹک کے مختلف شہروں میں حکام نے حجاب کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر پابندی عائد کرنا شروع کر دی ہے۔
میسور کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ شہر میں جمعے کو احتجاج کی اجازت مانگی گئی تھی تاہم انہوں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔