سموگ یا فضائی آلودگی کے اہم اسباب کیا ہیں؟

Last Updated On 22 December,2019 05:29 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) دور حاضر میں پیدا ہونے والے سموگ میں آلودگی کی متنوع اقسام کا عمل دخل ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں پیدا ہونے والے سموگ میں انڈیا میں فصلوں کو جلانے کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ اس سے بڑی مقدار میں دھواں پیدا ہوتا ہے۔

1905ء میں ہونے والی ایک ’’صحت عامہ کانفرنس‘‘ میں ڈاکٹر ہنری انتوین ڈی وُو نے ایک مقالہ پیش کیا جس میں غالباً پہلی بار ’’سموگ‘‘ کا لفظ برتا گیا تھا۔

یوں انگریزی کے دو الفاظ ’’فوگ‘‘ یعنی دھند اور ’’سموک‘‘ یعنی دھواں کو ملا کر بنائے گئے اس نئے لفظ کا سہرا ڈاکٹر ہنری کے سر باندھا جاتا ہے اور اس کا ایک پسِ منظر ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی دارالحکومت لندن کو دھند اور دھوئیں کے ملاپ سے بننے والی سموگ کی ایک قسم نے لپیٹ رکھا تھا۔ برطانیہ میں صنعتی ترقی کا دور تھا اور اس میں بطور ایندھن کوئلے کا استعمال عام تھا۔

تب برطانوی گھروں میں موسم سرما میں حدت پیدا کرنے اور صنعتوں کو چلانے کی خاطر کوئلے کو جلایا جاتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئلہ جلنے پر دھواں پیدا کرتا ہے۔

لہٰذا ڈاکٹر ہنری کا کہنا تھا کہ سموگ فضا میں دھویں اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی سے بنتی ہے۔ یوں دنیا اس نئے مظہر سے واقف ہوئی جس میں دور تک دیکھنا مشکل ہوتا ہے، آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

چند برس قبل تک پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے والے افراد ہی کو سموگ کی جان کاری تھی۔ امریکا چین اور انڈیا سمیت بعض ممالک کے بڑے شہروں میں سموگ چھا جانے کی خبریں ٹیلی ویژن کی سکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر آجایا کرتی تھیں۔

عملاً اس کا سامنا پاکستان کے شہریوں نہیں ہوا تھا لیکن اب ملک کے تمام بڑے شہروں کے باسی اس کا تلخ تجربہ کر چکے ہیں اور ان کی تعداد شاید کروڑوں میں ہے۔

لندن کی مذکورہ سموگ اور لاہور میں پیدا ہونے والی سموگ میں کچھ فرق ہے کیونکہ تب اور اب کی طرزِ زندگی، ٹیکنالوجی اور صنعت مختلف ہیں۔ دور حاضر میں پیدا ہونے والے سموگ میں آلودگی کی متنوع اقسام کا عمل دخل ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں پیدا ہونے والے سموگ میں انڈیا میں فصلوں کو جلانے کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ اس سے بڑی مقدار میں دھواں پیدا ہوتا ہے۔

یہ دھواں بالخصوص دہلی کو متاثر کرتا رہا لیکن اب یہ پاکستان میں لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک اور سبب سرما میں ہوا کا جمود بھی ہے، جس کی وجہ سے سموگ ٹھہر جاتی ہے۔

دیگر عوامل میں ٹرانسپورٹ ذرائع اور صنعتوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ہے۔ موجودہ زمانے میں طرح طرح کی آلودگی کا ملاپ سموگ جیسے زہریلے عمل کو پیدا کرتا ہے۔ عام طور پر سموگ کو گرما اور سرما میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

گرمائی سموگ پیچیدہ قسم کے فوٹوکیمیکل تعامل (روشنی کی مدد سے لائی گئی کیمیائی تبدیلیاں) سے پیدا ہوتی ہے اور یہ مظہر ریاست ہائے متحدہ امریکا میںزیادہ دیکھا جاتا ہے۔ اس میں عام طور پر دھواں یا بھاپ پیدا کرنے والے نامیاتی مرکبات (مثلاً لکڑی، کوئلہ اور ایندھن)، نائٹروجن آکسائیڈز اور سورج کی روشنی زمینی اوزون بنا دیتے ہیں۔

یہ اوزون فضا کی بیرونی سطح کے برخلاف زمین کی سطح کے قریب ہوتی ہے۔ زمینی سطح سے بہت بلند اوزون کی تہ انسانوں کے لیے مفید ہے کیونکہ یہ تابکاری کو زمین تک پہنچنے میں مانع ہے جبکہ نچلی اوزون نقصان دہ ہے۔ سرما اور گرماکے ساتھ ساتھ سموگ کی دو اقسام کے لیے بالترتیب سلفوریس سموگ اور فوٹوکیمیکل سموگ کی اصطلاحیں بھی رائج ہیں۔

سلفوریس سموگ اسی طرح کی ہوتی ہے جس سے لندن کو واسطہ پڑا تھا۔ یہ سلفرڈائی آکسائیڈ کے فضا میں زیادہ ارتکاز سے پیدا ہوتی ہے،اسے پیدا کرنے والے عوامل میں کوئلے جیسے فاسل فیولز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فوٹو کیمیکل سموگ کو ’’لاس اینجلس سموگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

امریکی شہر سے نسبت اس کے وہاں شروع ہونے اور بار بار آنے کی وجہ سے ہے۔ یہ سموگ عموماً ان شہروں میں ہوتی ہے جہاں گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ اس کے لیے دھند کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ اس کی بنیاد نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈروکاربن بخارات ہوتے ہیں جو گاڑیوں کے دھویں اور دیگر ذرائع سے خارج ہوتے ہیں۔

بعد ازاں زمین کی سطح کے قریب فضا میں ان کا فوٹو کیمیکل تعامل (ری ایکشن) ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی کی موجودگی میں نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈروکاربن بخارات کے تعامل سے زہریلی اوزون گیس پیدا ہوتی ہے۔اس طرح پیدا ہونے والی سموگ سے فضا کا رنگ بدل سا جاتا ہے۔

فوٹو کیمیکل سموگ میں ٹرانسپورٹ ذرائع مثلاً بس، ٹرک، کار سے نکلنے والا دھواں، کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے اور ایسے اجزا بھی جو گنجان آباد اور بڑے شہروں میں سموگ کا باعث بنتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ ذرائع سے سلفر ڈائی آکسائیڈز کا بھی اخراج ہوتا ہے۔ سرما میں سموگ کاروایتی سبب کوئلہ رہا ہے۔ کوئلے سے توانائی ماضی میں بھی حاصل کی جاتی تھی اور اب بھی کی جاتی ہے۔

عہد وسطیٰ کے انگلستان میں کوئلے کا استعمال عام تھا اور اس سے پیداشدہ سموگ سے لندن بیسویں صدی کے وسط تک خاصا بدنام رہا۔ جب چین نے ترقی کی راہ لی تو اس کے ہاں کوئلے کا استعمال بہت بڑھ گیا اور اس سے فضائی آلودگی اور سموگ جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ چین میں اب اس مسئلے پر قابو پانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

مجموعی طور پر دنیا میں کوئلے کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں سرمائی سموگ میں کوئلے سے زیادہ دیگر عوامل کا ہاتھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سموگ کے خلاف فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں اور ذمہ دار عوامل پر قابو پایا جائے کیونکہ یہ بہت بڑی آبادی کو صحت کے مسئلے سے دوچار کر دیتی ہے۔ یہ کاوشیں اجتماعی ہونی چاہئیں اور اس میں خطے اور عالمی سطح پر تعاون ہونا چاہیے۔

تحریر: رضوان عطا